کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 70
حدیبیہ)‘اپنے دفاع کے لیے خندق کھودنا‘منافقین مثلاً عبد اللہ بن اُبی وغیرہ کو قتل نہ کرنا ‘باوجودیکہ ان کا کفر مشرکین مکہ کے کفر سے بڑھ کر تھا اور ان کے دائمی جہنمی ہونے کی وعید قرآن نے سنا دی تھی وغیرہ‘ یہ ضرورتاً ‘ مصلحتاًاور عادتاً تھا نہ کہ یہ اقامت دین کے فریضے کے طریقے کی ادائیگی کا بیان تھا۔یہی وجہ ہے کہ جب چند ایک مواقع پر بعض صحابہؓ نے بعض منافقین کو قتل کرنے کی دربار رسالت سے اجازت چاہی تو آپؐ نے یہ نہیں کہا کہ یہ مسلمان ہیں اور ان کا خون بہانا ہم پر حرام ہے ‘بلکہ آپؐ نے جواباً یہ فرمایا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو قتل کرنا شروع کر دیاہے؟اقامت دین کے طریقے کے لزوم کے بارے میں ہم مضمون کے شروع میں بھی کچھ بحث کرچکے ہیں۔
اسی طرح اگر کوئی امر استحباب یا اباحت کے درجے میں ہوگا تو اس امر کا بیان جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی فعل سے کریں گے تو آپ‘کی ایسی سنت بھی مستحب یا مباح کادرجہ رکھے گی‘ جیسا کہ علامہ آمدیؒ نے ’الاحکام فی اُصول الاحکام‘ میں لکھا ہے۔مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا:((اِذَا انْتَعَلَ اَحَدُکُمْ فَلْیَبْدَاْ بِالْیَمِیْنِ))(۱۳۶)یعنی جب تم میں کوئی جوتا پہنے تو پہلے دایاں جوتا پہنے۔اب یہ حکم استحباب کے لیے ہے لہٰذا اس امر کا بیان یعنی وضاحت جب آپؐ کے فعل سے ہو گی تو آپؐ‘ کا وہ فعل بھی مستحب ہو گا۔علامہ آمدیؒ نے اس ساری بحث کو مختصر انداز میں یوں بیان کیا ہے:
واما ما عرف کون فعلہ بیانا لنا فھو دلیل من غیر خلاف فذلک إما لصریح مقالہ کقولہ صلوا کما رأیتمونی أصلی و خذوا عنی مناسککم أو بقرائن الأحوال و ذلک کما إذا ورد لفظ مجمل أو عام أرید بہ الخصوص أو مطلق أرید بہ التقیید و لم یبینہ قبل الحاجۃ إلیہ ثم فعل عند الحاجۃ فعلا صالحا للبیان فإنہ یکون بیانا حتی لا یکون مؤخرا للبیان عن وقت الحاجۃ وذلک کقطعۃ ید السارق من الکوع بیانا لقولہ تعالی فاقطعوا أیدیھما و کتیممہ إلی المرفقین بیانا لقولہ فامسحوا بوجوھکم و أیدیکم و نحوہ والبیان تابع للمبین فی الوجوب والندب و الإباحۃ(۱۳۷)
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فعل جو ہمارے لیے بیان یعنی وضاحت ہو گا ‘وہ ہمارے حق میں دلیل ہو گاا ور اس میں کسی کااختلاف نہیں ہے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا فعل یا تو آپؐ کے کسی صریح حکم کی وجہ سے ہمارے لیے بیان ہوتے ہوئے حجت ہو گا ‘جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’ ’جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو ویسے تم بھی نماز پڑھو‘‘ اور آپؐ‘ کا فرمان ہے:’ ’مجھ سے حج کے مناسک سیکھ لو۔‘‘یا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل قرائن و احوال کی وجہ سے بیان ہو گا جیساکہ کوئی لفظ عام تھا لیکن اس سے مراد خاص تھی یا لفظ مطلق تھالیکن اس سے مراد مقید تھی اور آپؐ نے اس لفظ کی مراد کو ضرورت سے پہلے واضح نہیں کیا تھا‘پھر جب ضرورت پڑی تو آپؐ نے کوئی کام کیا جوکہ بیان بننے کی صلاحیت رکھتا تھا‘لہٰذا آپ کا وہ