کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 69
حضرت ابو بکر ‘ حضرت عمر اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم وغیرہ حج کے موقع پر وادی ’مُحَصَّب‘ یعنی مقام ’ابطح‘ میں قیام کرتے تھے۔(۱۳۴)اور اس قیام کو یہ صحابہؓ حج کی سنن میں سے شمار کرتے تھے‘ کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حج کے دوران اس جگہ قیام کیا تھا۔لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اس جگہ آپؐ کے قیام کو اُمورِ عادیہ میں سے شمار کرتے تھے اور اس کو سنت نہیں سمجھتے تھے۔جیسا کہ ایک روایت کے الفاظ ہیں‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
کَانَ نُزُوْلُ الْاَبْطَحِ لَـیْسَ بِسُنَّۃٍ‘ اِنَّمَا نَزَلَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم لِاَنَّـہٗ کَانَ اَسْمَحَ لِخُرُوْجِہٖ اِذَا خَرَجَ(۱۳۵)
’’مقام ’ابطح‘ میں قیامِ سنت نہیں ہے ‘کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ قیام اس لیے کیا تھا کہ آپ کے لیے اس مقام سے نکلنے میں آسانی تھی۔‘‘
یہ بھی ذہن میں رہے کہ((صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ))اور((خُذُوْا عَنِّیْ مَنَاسِکَکُمْ))کے بیان میں بھی آپؐ کے تمام افعال ایک درجے کے نہیں ہیں۔بعض افعال ان میں سے فرائض کے درجے کے ہیں اور بعض سنن کے درجے کے ہیں۔مثلاً وادی ’مُحَصَّبْ‘ کا قیام اگر بعض صحابہؓ نے کیا بھی ہے تو اس کو فرض یا واجب سمجھ کر نہیں بلکہ مستحب سمجھ کر کیاہے اور معروف مذاہب میں سے کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کے ہاں یہ قیام حج کے فرائض یا واجبات میں سے نہیں ہے۔شوافع اور مالکیہ کے نزدیک یہ مستحب ہے جبکہ باقی فقہاء کے نزدیک مستحب بھی نہیں ہے۔اسی طرح نماز میں سورۃ الفاتحہ سے پہلے ’بِسم اللّٰہ‘ پڑھنے کو کسی بھی فقیہہ نے فرض قرار نہیں دیا ‘حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں ’بِسم اللّٰہ‘ پڑھی ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ جن فرائض میں صرف فرض کی ادائیگی پر زور دیاگیا ہے اور اس کے طریقے کو لازم نہیں کیا گیاتو اس کاطریقہ بیان میں شامل نہیں ہے اور یہ عموماً ایسے فرائض میں ہے جن کی ادائیگی کے طریقے میں حالا ت و زمانے کی تبدیلی کو بہت زیادہ عمل دخل حاصل تھا‘جیسا کہ جہاد و قتال اور اعلائے کلمۃ اللہ کا معاملہ ہے۔اقامت دین ایک دینی فریضہ ہے اور اس کی ادائیگی کا طریقہ سنت نبوی سے ملتا ہے تو کیا اس فریضے کی ادائیگی میں آپ کا ہر ہر فعل فرض کے درجے میں ہو گا؟اس کا جواب یہ ہے کہ اقامت دین اور اعلائے کلمۃ اللہ کے فریضے کی ادائیگی کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہونے والے متعدد افعال بھی اُن اُمورِ عادیہ سے تعلق رکھتے ہیں‘ جنہیں آپؐ نے کسی ضرورت کے تحت کیا نہ کہ بطور تشریع کے کیا ہے‘ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں امامہ بنت زینب کو اٹھایا یا اونٹ پر بیٹھ کر بیت اللہ کا طواف کیا تو یہ نماز یا حج کے فریضے کا بیان یعنی وضاحت نہیں ہے بلکہ یہ اُمورِ عادیہ ہیں۔اسی طرح اقامت دین کے فریضے کی ادائیگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہجرت کرنا‘ یہودیوں سے معاہدہ کرنا(میثاق مدینہ)‘مشرکین سے صلح کرنا(صلح