کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 68
گردن پر بٹھا کر نماز پڑھا کرتے تھے۔اب جن صحابہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح نماز پڑھاتے دیکھا تو کیا ان کے لیے یہ واجب یافرض ہو گیا کہ وہ اپنی نواسیوں کو اپنی گردنوں پر بٹھا کر نماز پڑھیں یا پڑھائیں؟کوئی بھی صحابی ؓ آپؐ کی اقتدا میں اپنی نواسی کو مسجد میں نہیں لایا تاکہ وہ بھی اسی طرح نماز پڑھے جیسے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے ہیں۔اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم((صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ))میں آپؐ کے کون سے افعال اس حکم کا بیان ہیں اور کون سے امور عادیہ میں سے ہیں ‘ ان میں فرق کرنا پڑے گا۔اور اس میں بعض اوقات فقہاء میں اختلاف بھی ہوجاتا ہے۔مثلاً تمام فقہاء اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں جلسۂ استراحت کیا ‘یعنی پہلی اور تیسری رکعت میں دو سجدوں کے بعد پہلے بیٹھے اور پھر قیام کیا۔لیکن احناف کے نزدیک یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عادی اُمور میں سے ہے‘ آپؐ نے نماز میں جلسۂ استراحت بڑھاپے کی وجہ سے کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل((صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ))کا بیان نہیں ہے ‘جبکہ جمہور علماء جلسۂ استراحت کو((صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ))کا بیان مانتے ہیں۔اسی طرح صحیح احادیث میں ہے کہ حج کے دوران عرفات سے منیٰ واپسی تک کا سفر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ پر کیا ‘حتیٰ کہ آپؐ نے بیت اللہ کا طواف بھی اونٹ پر کیا ‘اور صفا ومروہ کی سعی بھی۔تو کیا اونٹ پر بیٹھ کر بیت اللہ کا طواف کرنا یا صفا ومروہ کی سعی کرناواجب یا فرض ہے؟واجب یا فرض تو کجا ‘یہ سنت بھی نہیں ہے!حضرت ابو طفیلؒ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا:
یَزْعُمُ قَوْمُکَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم طَافَ عَلٰی بَعِیْرٍ بِالْبَیْتِ وَاَنَّـہٗ سُنَّــۃٌ‘ قَالَ صَدَقُوْا وَکَذَبُوْا‘ قُلْتُ مَا صَدَقُوْا وَمَا کَذَبُوْا؟قَالَ صَدَقُوْا طَافَ عَلٰی بَعِیْرٍ وَلَیْسَ بِسُنَّۃٍ‘ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ لَا یَصْرِفُ النَّاسُ عَنْہُ وَلَا یَدْفَعُ فَطَافَ عَلَی الْبَعِیْرِحَتّٰی یَسْمَعُوْا کَلَامَہٗ وَلَا تَنَالُہٗ اَیْدِیْھِمْ(۱۳۳)
’’آپ کی قوم کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ پر بیٹھ کر بیت اللہ کا طواف کیا اور یہ سنت ہے۔تو حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے کہا کہ ایک بات میں وہ سچے ہیں اور ایک میں جھوٹے ہیں۔میں نے کہا:ان کی کون سی بات سچی ہے اور ان کی کس بات میں جھوٹ ہے؟تو حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے کہا:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ پر بیت اللہ کاطواف کیا(یہ بات درست ہے)اور یہ سنت نہیں ہے(یعنی اس فعل کو سنت کہنا جھوٹ ہے)۔(اصل معاملہ یہ ہے کہ)اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگ ہٹتے نہیں تھے(یعنی آپؐ پر ہجوم کر لیتے تھے)پس آپؐ نے اونٹ پر طواف کیا تاکہ لوگ آپ کی بات اچھی طرح سن سکیں اور ان کے ہاتھ آپؐتک نہ پہنچ سکیں۔‘‘
بعض اوقات صحابہ رضی اللہ عنہم میں بھی اس امر میں اختلاف ہو جاتا تھا کہ حج کے دوران آپؐ‘کا فلاں فعل((خُذُوْا عَنِّیْ مَنَاسِکَکُمْ))کا بیان یعنی وضاحت ہے یا امور عادیہ میں سے ہے۔مثلاً بعض صحابہ ؓ