کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 65
جاری کیا ہے ‘اور یہی رائے صحیح ہے ‘کیونکہ اس رائے کے حق میں قرائن و دلائل بہت قوی ہیں۔
(۳)افعالِ خصوصی
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال جو کہ آپؐ کے ساتھ خاص ہیں وہ اُمت کے لیے سنت نہیں ہیں‘ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چار سے زائد عورتوں سے شادی کرنا‘ صومِ وصال یعنی مغرب کے وقت بغیر افطار کیے مسلسل رات اور دن کا روزہ رکھنااور عصر کے بعد نوافل پڑھنا وغیرہ۔اصل قاعدہ یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال اُمت کے لیے بھی تشریع ہیں ‘کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ﴾(الاحزاب:۲۱)
’’البتہ تمہارے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔
اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے گا کہ فلاں فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے تو اسے اس کے لیے کوئی دلیل لانی پڑے گی۔اگر کوئی دلیل مل جائے تو پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فعل اُمتِ مسلمہ کے لیے ایسی سنت کا درجہ نہیں رکھے گا جس کی اتباع مشروع ہو۔مثلاً حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:
نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَنِ الْوِصَالِ‘ قَالُوْا:اِنَّکَ تُوَاصِلُ‘ قَالَ:((اِنِّیْ لَسْتُ مِثْلَکُمْ اِنِّیْ اُطْعَمُ وَاُسْقٰی))(۱۲۳)
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے(ایک دن صحابہؓ‘ کو)صومِ وصال سے منع کیا تو صحابہؓ نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!آپ بھی تو وصال کرتے ہیں۔آپؐ نے فرمایا:میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔مجھے اپنے رب کی طرف سے کھلایا اور پلایا جاتا ہے۔‘‘
اس حدیث میں یہ دلیل موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فعل ہمارے لیے سنت نہیں ہے۔جب صحابہؓ نے آپؐ کے فعل کو اپنے عمل کی دلیل بنایا توآپؐ نے اپنے اور اُمتیوں کے فرق کو واضح کرتے ہوئے اپنے فعل کو اُمت کے حق میں مشروع قرار نہ دیا۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فعل کے بارے میں اسی نص میں کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں ہوتا جو اس کی خصوصیت پر دلالت کر رہا ہو‘ حالانکہ وہ فعل آپؐ کے ساتھ خاص ہوتا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے:
مَا تَرَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم السَّجْدَتَیْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ عِنْدِیْ قَطُّ(۱۲۴)
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس عصر کے بعد کی دو رکعتیں کبھی بھی ترک نہ کیں۔‘‘
اسی حدیث کی بنا پر بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عصر کے بعد نفل نماز پڑھ لیتے تھے۔جیسا کہ عبد العزیز بن رفیع ؒ فرماتے ہیں:
رَأَیْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الزُّبَیْرِ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَیُخْبِرُ اَنَّ عَائِشَۃَ رضی اللّٰه عنہا