کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 64
گناہوں میں سے ایک گناہ ہے۔جہاں تک عمامہ باندھنے کا تعلق ہے تو یہ مباحات میں سے ایک مباح ہے اور یہ سنت نہیں ہے جیسا کہ آپ کا وہم ہے۔اور بہتر یہی ہے آپ اپنے علاقے کے لوگوں کا لباس پہنیں جیسا کہ وہ اپنے سروں پر رومال اور عقال لیتے ہیں۔آپ کے دین کے ساتھ تمسک اور اتباع سنت پر حرص کی وجہ سے لوگ آپ کا جومذاق اڑاتے ہیں تو اس کی پرواہ نہ کریں اور نہ ہی اس پر پریشان ہوں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو دین کی سمجھ عطا کرے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کی توفیق دے۔عمل کی توفیق اللہ ہی کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل اور ان کے صحابہؓ پر رحم فرمائے۔‘‘ عمامے سے متعلق ایک اور سوال کے جواب میں اللجنۃ الدائمۃ نے یہ جوا ب دیا: ج:لبس العمامۃ من العادات ولیس من العبادات‘ و إنما لبسھا النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم لأنھا کانت من لباس قومہ‘ ولم یصح فی فضل العمائم شیء‘ غیر أن النبی لبسھا‘ فالمشروع للانسان أن یلبس ما تیسر لہ من لباس أھل بلدہ ما لم یکن محرما۔وباللّٰہ التوفیق و صلی اللّٰہ علی نبینا محمد وآلہ و صحبہ وسلم(۱۲۲) ’’جواب:عمامہ پہننااللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عادات میں سے ہے اور یہ عبادت کا کام نہیں ہے۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامہ اس لیے باندھا ہے کہ یہ آپ کی قوم کالباس تھا‘ عمامے کی فضیلت میں کوئی ایک بھی روایت صحیح سند سے ثابت نہیں ہے‘ ہاں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمامہ پہننا ثابت ہے۔انسان کے لیے شرعی حکم یہ ہے کہ اس کے علاقے والوں کا جو لباس ہے وہ اس کو پہنے بشرطیکہ وہ حرام نہ ہو۔‘‘ عمامے کی فضیلت میں بعض ضعیف اور موضوع روایات بھی پھیلا دی گئی ہیں ‘کسی مناسب وقت میں ہم ان تمام روایات کی استنادی حیثیت پر گفتگو کریں گے۔یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاشرے میں کفار و مشرکین بھی عمامہ پہنتے ‘ تہبند باندھتے اورموزے وغیرہ پہنتے تھے۔لہٰذ ا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق و محبت کے اظہار کرنے کے لیے یہ سب کام کرنا جائز ہیں ‘لیکن ان کو ثواب یا عبادت کی نیت سے کرنا بدعت ہے۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ مسلمان معاشروں میں علماء و مذہبی طبقوں کے رواج و عرف کا لحاظ رکھتے ہوئے اسلامی تحریکوں کے کارکنان کے لیے اپنے سر کو ڈھانپنا یاٹوپی پہننا ایک مستحسن امر ہے۔ اسی طرح اگر کسی عادی امر کے بارے میں احادیث میں کوئی قرائن موجود ہوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان امور عادیہ کو بطور تشریع جاری کیا ہے تو وہ عادی امور اُمت کے حق میں مشروع ہوں گے۔بعض امور عادیہ کے بارے میں علماء میں اختلاف بھی ہواہے کہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عادی امور ہیں یا آپ نے انہیں بطور دین جاری کیا ہے ‘جیسا کہ مصر اور بعض دوسرے ممالک کے علماء نے داڑھی کو اُمورِ عادیہ میں شمار کیا ہے جبکہ سعودیہ اور برصغیر کے علماء کے نزدیک داڑھی کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور تشریع