کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 63
لبس العمامۃ‘ وھل ھی سنۃ مؤکدۃ‘ ھل ھذہ العمامۃ لا تصلح لھذا الزمان الذی نحن فیہ؟وما ھی صفات رسول اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وسلم فی لبس العمامۃ؟وھل کانت لھا ألوان کالأبیض والأسود؟وھل اؤثم علی لبسھا؟وھل علی إثم إن أنا حثیت من حولی علی لبسھا؟أفیدونی أفادکم اللّٰہ و جزاکم اللّٰہ خیرا کثیرا۔ ’’سوال:میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور اقتداء میں اپنی داڑھی بڑھا لی ہے اور اپنے کپڑوں کو ٹخنوں سے اوپر کر لیا ہے اور اللہ کے فضل سے عمامہ بھی باندھ لیا ہے‘ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اکثر لوگوں نے میرا اس بات پر مذاق اڑایا ہے اور اس کو ناپسند کیاہے کہ میں نے سعودی رومال اور عقال پہننا چھوڑ دیاہے ‘ لوگ میری طرف مذاق اور ناپسندیدگی کی نگاہ سے اس طرح دیکھتے ہیں گویا میں نے کوئی ناپسندیدہ اور عجیب کام کیا ہو۔کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامہ باندھا ہے؟کیا عمامہ باندھنا سنت مؤکدہ ہے؟کیا اس زمانے میں جس میں ہم رہ رہے ہیں ‘عمامہ باندھنا ایک درست کام ہے؟کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عمامے کا رنگ کالا اور سفید تھا؟کیا عمامہ باندھنے سے میں گناہگار ہوں گا؟کیا اگر میں کسی کو عمامہ باندھنے کی ترغیب دوں تو یہ گناہ ہے؟مجھے شرعی حکم بتا کر فائدہ پہنچائیں ‘ اللہ بھی آپ کو فائدہ دے گا۔اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔‘‘ ج:الحمد للّٰہ الذی ھداک و وفقک لاتباع السنۃ‘ وما ذکرتَـہ من إعفاء اللحیۃ فھو واجب؛ لأنہ من سنن الأنبیاء‘ و من خصال الفطرۃ‘ وقد نھی النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم عن حلق اللحیۃ وقصھا:لما فیہ من التشبہ بالکفار‘ وأما تقصیر الثوب فالواجب تقصیرہ إلی الکعبین‘ وما نزل عن الکعبین فھوإسبال محرم وکبیرۃ من کبائر الذنوب‘ وأما لبس العمامۃ فھو من المباحات ولیس بسنۃ کما توھمتَ‘ والأولی أن تبقی علی ما یلبسہ أھل بلدک علی رؤوسھم من الغترۃ والشماغ ونحوہ۔وأما استھزاء الناس بل بسبب تمسک بالدین وحرصک علی اتباع السنۃ فلا تلتفت إلیہ‘ ولا یھمک‘ وفقنا اللّٰہ وإیاک للفقہ فی الدین والعمل بسنۃ سید المرسلین۔وباللّٰہ التوفیق‘ وصلی اللّٰہ علی نبینا محمد و آلہ وصحبہ و سلم(۱۲۱) ’’جواب:تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے آپ کو ہدایت دی اور آپ میں اتباع سنت کا جذبہ پیدا کیا۔جہاں تک داڑھی کو چھوڑنے کا ذکر ہے تو یہ فرض ہے اور انبیاء کی سنت ہے اور خصالِ فطرت میں سے ایک خصلت ہے۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی کو مونڈنے اور کتروانے سے منع فرمایا ہے کیونکہ اس میں کفار سے مشابہت ہے۔جہاں تک کپڑوں کو اوپر کرنے کا معاملہ ہے تو ٹخنوں سے اوپر کپڑے کرنا واجب ہے ‘ جو کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہو گا تو وہ اسبالِ ازار ہے اور یہ حرام اور کبیرہ