کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 62
اِزَارٍ وَقَبَائٍ فِیْ سَرَاوِیْلَ وَ رِدَائٍ فِیْ سَرَاوِیْلَ وَقَمِیْصٍ فِیْ سَرَاوِیْلَ وَقَبَائٍ فِیْ تُبَّانٍ وَقَـبَائٍ فِیْ تُبَّانٍ وَقَمِیْصٍ‘ قَالَ وَاَحْسِبُہٗ قَالَ فِیْ تُبَّانٍ وَرِدَائٍ(۱۲۰)
’’ایک آدمی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے بارے میں سوال کیا(کہ کیا یہ جائز ہے؟)تو آپؐ نے فرمایا:’’کیا تم میں سے ہر ایک کے پاس دو کپڑے ہیں؟‘‘(یعنی تم خواہ مخواہ سوال تو نہیں کر رہے ہو؟حالانکہ کئی صحابہؓ کے پاس ستر ڈھانپنے کے لیے بھی ایک سے زائد کپڑا موجود نہیں ہے)۔اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جب کسی نے یہی سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا:اللہ نے تم کو وسعت دی ہے تو اس وسعت کو اختیار کرو(یعنی ایک کپڑے میں نماز پڑھنا تو جائز ہے لیکن جب تمہارے پاس ایک سے زائد کپڑے موجود ہیں تو ان کو پہنو)۔ایک آدمی کواپنے بدن کو کپڑوں سے ڈھانپنا چاہیے۔ایک آدمی کو چاہیے کہ وہ ایک تہبند اور چادر میں یا ایک تہبند اور قمیص میں یا ایک تہبند اور چوغے میں یاشلوار اور چادر میں یاشلوار اور قمیص میں یاشلوار اور چوغے میں یا لنگوٹ اور چوغے میں یالنگوٹ اور قمیص میں نماز پڑھے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ حضرت عمر ؓ نے یہ بھی کہا کہ وہ لنگوٹ اور چادر میں نماز پڑھے۔‘‘
اس روایت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وسعت کے زمانے میں مسلمانوں کی نماز کا لباس تفصیل سے بیان کیا ہے کہ جس میں دُور دُور تک کسی ٹوپی یا عمامے کا تذکرہ نہیں ہے۔اسی طرح اگر عمامہ ہی کو سنت کہا جائے تو تہبند پہننا بھی اسی درجے کی سنت ہونی چاہیے کیونکہ آپ نے عمامے کے ساتھ تہبند بھی باندھا ہے۔جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تہبند کے علاوہ شلوار اور لنگوٹ میں بھی نماز پڑھنے کا حکم دے رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تہبند باندھنا یا شلوار پہننا صحابہؓ کے نزدیک ایک ہی حکم رکھتا تھا۔[1] پس ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامہ اور تہبند اللہ کا قرب حاصل کرنے یا عبادت کے لیے نہیں باندھا بلکہ آپ نے اپنے معاشرے کے مروج لباس کا لحاظ رکھتے ہوئے عمامہ اور تہبند باندھا ہے۔ایک صاحب نے جب ’ اللجنۃ الدائمۃ السعودیۃ‘سے عمامے کے بارے میں سوال کیا تو اللجنۃ الدائمۃ کے شیوخ ‘شیخ بکر ابوزید‘ شیخ عبدالعزیز آل الشیخ ‘ شیخ صالح الفوزان‘ شیخ عبد اللہ بن غدیان اور شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز ؒ نے درج ذیل فتویٰ دیا۔ہم یہاں سوال اور جواب دونو ں کو نقل کر رہے ہیں:
س:أعفیتُ لحیتی وقصرتُ ثوبی ولبستُ العمامۃ بفضل اللّٰہ‘ اتباعا واقتداء‘ ولکن الغریب فی الأمر:ان الکثیر و الکثیر من الناس انکر علی ذلک‘ واستھزؤوا بی لترکی الغترۃ و الشماغ و العقال‘ و ینظرون الی بسخریۃ و استنکار‘ وکانی أفعل شیئا منکرا أو غریبا۔فھل الرسول صلی اللّٰه علیہ وسلم
[1] ایک مستقل مضمون میں ان شاء اللہ عمامے اور تہبند وغیرہ کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا طرز عمل واضح کیا جائے گا ۔