کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 57
کو آپؐ نے ثواب سمجھ کر نہیں کیا اس کو ثواب سمجھ کر کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک کام آپؐ کے نزدیک عبادت نہیں ہے اور ہم اس کوعبادت بنا لیں۔اور یہی دین میں اضافہ اوربدعت ہے جس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔اس مسئلے میں کسی صاحب عقل کو اختلاف نہیں ہو سکتا کہ آپ کا نماز میں بچے کو اٹھانا یا گدھے پر سوار ہونا بطور عبادت(یعنی اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے)نہیں تھا بلکہ اتفاقاً تھا۔علامہ آمدیؒ نے ’’الاحکام‘‘ میں لکھا ہے کہ اتباع کی تعریف بالاتفاق یہ ہے کہ کسی کام کوا سی طور پر کیا جائے جس طرح آپ نے کیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر کوئی کام اتفاقاً کیا ہے تو اس کو اتفاق سمجھ کر کیا جائے‘ جیسا کہ گدھے کی سواری ‘اور اگر آپ نے کسی کام کو جبلی تقاضوں کے تحت کیا ہو تو اس کو آپ کا جبلی فعل سمجھ کر اس کی پیروی کی جائے نہ کہ دین سمجھ کر ‘جیسا کہ کدو کھانا۔اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی فعل کو تقرب الی اللہ کی نیت اور ارادے سے کیا ہے تواس فعل میں آپ کی اتباع اسی نیت و ارادے سے کی جائے اور اس فعل کود ین سمجھا جائے ‘ اس پر ثواب کی امید رکھی جائے وغیرہ۔صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اس حال میں کہ آپؐ نے اپنے گریبان کے بٹن کھولے ہوئے تھے۔اب اگر کوئی شخص نماز میں یہ حالت عبادت یا ثواب سمجھ کر اختیار کرتا ہے تو یہ بدعتی ہے‘ کیونکہ آپؐ نے اس فعل کو اتفاقاً کیااور عبادت سمجھ کر نہ کیاتھا۔اس شخص نے نماز کی سنن میں ایک ایسے فعل کا اضافہ سنت سمجھ کر کر دیا ہے جو درحقیقت نماز کی سنت نہیں ہے۔اس فعل کے اتفاقی ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر نماز میں گریبان کھلا رکھناعبادت یا باعث ثواب ہوتا تو صحابہؓ ‘بھی اس فعل میں آپ ؐ‘کی متابعت کرتے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جبلی یا اتفاقی امور کے سنت نہ ہونے کی دلیل حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی درج ذیل روایت بھی ہے۔حضرت ابوطفیلؒ نے ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے کہا: یَزْعُمُ قَوْمُکَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم طَافَ عَلٰی بَعِیْرٍ بِالْبَیْتِ وَاَنَّـہٗ سُنَّــۃٌ‘ قَالَ:صَدَقُوْا وَکَذَبُوْا‘ قُلْتُ مَا صَدَقُوْا وَمَا کَذَبُوْا؟قَالَ:صَدَقُوْا طَافَ عَلٰی بَعِیْرٍ وَلَیْسَ بِسُنَّۃٍ‘ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ لَا یَصْرِفُ النَّاسُ عَنْہُ وَلَا یَدْفَعُ فَطَافَ عَلَی الْبَعِیْرِحَتّٰی یَسْمَعُوْا کَلَامَہٗ وَلَا تَنَالُہٗ اَیْدِیْھِمْ(۱۱۰) ’’آپ کی قوم کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ پر بیٹھ کر بیت اللہ کا طواف کیا اور یہ سنت ہے!تو حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے کہا کہ ایک بات میں وہ سچے ہیں اور ایک میں جھوٹے ہیں۔میں نے کہا:ان کی کون سی بات سچی ہے اور ان کی کس بات میں جھوٹ ہے؟تو حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے کہا:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ پر بیت اللہ کاطواف کیا(یعنی یہ بات درست ہے)اور یہ سنت نہیں ہے(یعنی اس فعل کو سنت کہنا جھوٹ ہے)۔(اصل معاملہ یہ ہے کہ)اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگ ہٹتے نہیں تھے(یعنی آپؐ‘ پر ہجوم کر لیتے تھے)پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے