کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 56
فإذا قصدنا تخصیص ذلک المکان بالصلاۃ أو النزول لم نکن متبعین بل ھذا من البدع التی کان ینھی عنھا عمر بن الخطاب کما ثبت بالاسناد الصحیح من حدیث شعبۃ عن سلیمان التمیمی عن المعرور بن سوید قال:کان عمر بن الخطاب فی سفر فصلی الغداۃ‘ ثم أتی علی مکان فجعل الناس یأتونہ و یقولون:صلی فیہ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘ فقال عمر:إنما ھلک أھل الکتاب أنھم اتبعوا أنبیائھم فاتخذوھا کنائس و بیعا‘ فمن عرضت لہ الصلاۃ فلیصل‘ و إلا فلیمض(۱۰۹)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کا مفہوم یہ ہے کہ وہی کام کیا جائے جو کہ آپؐ نے کیا ہے اور اسی طور پر کیا جائے جیسا کہ آپ نے اس کو کیا ہے(یعنی اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو عبادت کے طور پر کیا ہے تو اس کو بطور عبادت کیا جائے اور اگرآپ نے اسے اتفاقاً یا عادتاًکیا ہے تو ہم بھی اسے ایک اتفاق یا عادت کے طور پر کریں)۔پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کام عبادت کے طور پر کیا ہے تو ہمارے لیے بھی مشروع یہ ہے کہ ہم اسے بطور عبادت ہی کریں۔اور اگر آپؐ نے کسی عبادت والے کام کو کسی جگہ یا وقت کے ساتھ مخصوص کیا ہے تو ہم بھی اس عبادت والے کام کی اس جگہ یا وقت کے ساتھ تخصیص کریں‘ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ‘ کوشش کرتے تھے کہ بیت اللہ کے گرد طواف کریں‘ حجر اسود کا استلام کریں ‘مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھیں ‘ اور مسجد نبوی کے ستون کے پاس نماز پڑھیں۔اور آپؐ نے صفا اور مروہ پر چڑھنے اور ان پر دعا اور ذکر و اذکار کاکام قصداً کیا ہے۔اسی طرح کا معاملہ عرفات اور مزدلفہ کے قیام کا بھی ہے۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کام اتفاقاً کیا ہے اور آپؐ نے اس کام کے کرنے میں عبادت کا قصد نہیں کیا ‘مثلاً آپ نے کسی خاص جگہ اتفاقاً نماز پڑھی یا قیام کیاتو ہم اس جگہ نماز پڑھنے یا قیام کرنے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہیں کریں گے اور ایسے کاموں میں آپ کی اتباع ایسی بدعت ہے جس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ منع کرتے تھے ‘جیسا کہ صحیح سند سے ثابت ہے کہ حضرت شعبہ بن سلیمان التمیمیؒ حضرت معرور بن سویدؒسے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓنے ایک دفعہ سفر میں صبح کی نماز پڑھائی ‘پھر آپ ایک ایسے مقام پر آئے جہاں لوگوں کا ہجوم تھا اور لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں نماز پڑھی ہے(یعنی ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں اس جگہ نماز پڑھیں)تو حضرت عمرؓ نے کہا:تم سے پہلی قومیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی اتباع میں ان کی جگہوں کو اپنی عبادت گاہیں بنا لیا۔پس جس کے لیے نماز کا وقت ہو جائے تو وہ نماز پڑھ لے اور اگر نماز کا وقت نہیں ہے تو(بجائے انتظار کرنے کے)آگے چلا جائے۔‘‘
امام ابنِ تیمیہ ؒنے متابعت کی تعریف واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر ایک کام کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اتفاقاً کیا ہے ‘مثلاً آپؐ نے گدھے پر سواری اتفاقاً کی ہے ‘اب اس کو عبادت یا ثواب کا کام سمجھ کر کرنا بدعت ہے ‘کیونکہ آپؐ نے جب اس فعل کوکیا تھا تو ثواب سمجھ کر نہیں کیا تھا۔اس لیے جس کام