کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 55
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے افعال ہیں کہ جن کو علماء کی ایک جماعت نے مستحب قرار دیا ہے‘ لیکن جمہور علماء کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ افعال مستحب نہیں ہیں اور نہ ہی اکابر صحابہ حضرت ابو بکر ‘ حضرت عمر‘حضرت عثمان‘ حضرت علی‘حضرت عبد اللہ بن مسعو داور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم وغیرہ نے ان کو مستحب سمجھا ہے اور نہ ہی ان اکابر صحابہؓ نے ایسا کیا ہے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کرتے تھے۔اگر یہ اکابر صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان افعال کو مستحب سمجھتے تو وہ لازماً ان کو کرتے‘کیونکہ وہ اللہ‘کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء اور متابعت کے لیے حد درجہ کوشش کرتے تھے(یعنی ان افعال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ‘کی پیروی اکابر صحابہؓ کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت اوراقتداء کے مفہوم میں شامل نہیں تھی)۔‘‘ امام صاحبؒ کی اس عبارت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اتفاقی امور میں آپؐ کی پیروی کرنا باعث ثواب نہیں ہے ‘کیونکہ اگر یہ باعث ثواب ہوتا تو اکابر صحابہؓ ‘بھی ایسا کرتے۔امام ابن تیمیہؒ کی طرح امام زرکشی ؒنے’البحر المحیط‘ میں لکھا ہے کہ جمہور علماء کا یہی موقف ہے اور اصول فقہ کی کتابوں میں بھی معروف مذہب کے طور پر یہی موقف بیان ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال جن کا جبلی ہونا واضح ہو ‘ مباح ہیں۔امام شوکانی‘ ؒ نے بھی’ارشاد الفحول‘ میں اسے ہی جمہور کا مذہب قرار دیا ہے۔علامہ آمدیؒ کے ’ الاحکام‘ میں اس موضوع پر بیان سے محسوس ہوتا ہے کہ اس مسئلے میں علماء کا یہی ایک موقف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جبلی افعال مباح ہیں۔البتہ قاضی عیاضؒ نے لکھا ہے کہ علماء کی ایک جماعت کے نزدیک یہ افعال مستحب ہیں ‘جیسا کہ ابن تیمیہؒ نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے ‘لیکن علماء کی اس جماعت کے نام اصول کی کتابوں میں منقول نہیں ہیں ‘لہٰذا اس قول کی اہمیت ویسے ہی کم ہو جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ علامہ آمدیؒ نے اس مسئلے میں ایک ہی رائے کا بالجزم اظہار کیا ہے اور مندوب والی رائے بیان نہیں کی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جبلی افعال کو مندوب کہنے والے علماء کا موقف اس اعتبار سے بھی کمزور ہے کہ یہ صحابہؓ کے عمل کے خلاف ہے‘ جیسا کہ امام ابن تیمیہؒ نے واضح کیا ہے۔اس کے بعد امام صاحبؒ لکھتے ہیں: أن المتابعۃ أن یفعل مثل ما فعل علی الوجہ الذی فعل‘ فإذا فعل فعلا علی وجہ العبادۃ شرع لنا أن نفعلہ علی وجہ العبادۃ‘ و إذا قصد تخصیص مکان أو زمان بالعبادۃ خصصناہ بذلک‘ کما کان یقصد أن یطوف حول الکعبۃ‘ وأن یستلم الحجر الأسود‘ و أن یصلی خلف المقام‘ وکان یتحری الصلاۃ عند أسطوانۃ مسجد المدینۃ‘ وقصد الصعود علی الصفا والمروۃ والدعاء والذکر ھناک‘ و کذلک عرفۃ و المزدلفۃ و غیرھا۔وما فعلہ بحکم الاتفاق و لم یقصدہ مثل أن ینزل بمکان و یصلی فیہ لکونہ نزلہ لا قصدا لتخصیصہ بالصلاۃ و النزول فیہ