کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 49
ثابت ہوا کہ اتباع کا لفظ اس معنی میں عام ہے کہ اگر کسی کے حکم پرعمل کیا جائے تویہ بھی اتباع ہے اور اگر کسی کے حکم کے بغیر اس کے نقش قدم پر چلا جائے تو یہ بھی اتباع ہے۔
اتباع کا یہ معنی تو لغت سے واضح ہے کہ کسی کے پیچھے چلنا ‘لیکن کیا اتباع کے معنی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جہاں کوئی دایاں پاؤں رکھے بعینہٖ اُس جگہ اُس کے پیچھے چلتے ہوئے دایاں پاؤں رکھا جائے اور جہاں کسی کا بایاں پاؤں زمین پرپڑے عین اسی جگہ اپنا بایاں پاؤں ہی رکھا جائے؟اہل لغت میں سے کسی نے بھی اتباع کا یہ مفہوم بیان نہیں کیا ہے۔قرآن میں بہت سے مقامات ایسے ہیں جن سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے ہر ہر فعل میں آپؐ‘کی پیروی مراد نہیں ہے۔مثلاً ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿یٰٓـاَیـُّـھَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ.﴾(الانفال)
’’اے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم!)اللہ تعالیٰ آپ کے لیے بھی اور اہل ایمان میں سے جنہوں نے آپ کی اتباع کی ‘ ان کے لیے بھی کفایت کرنے والا ہے۔‘‘
اگر اتباع سے مراد یہ لی جائے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جبلی افعال مثلاً آپ‘کا کھانا‘ پینا‘ اٹھنا اور بیٹھنا وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں تواکثر صحابہ رضی اللہ عنہم توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جبلی افعال میں آپ کی پیروی نہیں کرتے تھے ‘تو کیا ان صحابہؓ‘‘ کو اللہ کی ذات کفایت کرنے والی نہیں ہے؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے زیادہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں روایات میں ملتا ہے کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ہر فعل کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے تھے۔حج یا عمرہ کے دوران اگر کسی جگہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاگزر ہواہوتا تھاتو وہ بھی اسی جگہ سے گزرنے کی کوشش کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی جگہ راستے میں قضائے حاجت کے لیے بیٹھے تھے تو وہ بھی اسی جگہ قضائے حاجت کااہتمام کرتے تھے۔حضرت عبد للہ بن عمرؓ کے علاوہ باقی جلیل القدر صحابہ‘ ؓ آپؐ‘ کی اس درجے پیروی نہیں کرتے تھے۔اگر تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا آپؐ‘کی پیروی میں حد درجے آگے بڑھ جانا اتباع کے مفہوم میں شامل ہے تو پھر﴿فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْـکُمُ اللّٰہُ﴾کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ صحابہ کی اکثریت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والی نہیں تھی اور نہ ہی اللہ کی محبوب تھی۔کیونکہ تمام صحابہؓ ‘آپؐ کے ہر ہر عمل میں آپؐ‘کی پیروی نہیں کرتے تھے۔اسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا:
﴿وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّـبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ.﴾(الشُّعراء)
’’اور(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!)آپؐ اپنے دونوں بازو اِن اہل ایمان کے لیے پست رکھیں جنہوں نے آپؐ ‘کی اتباع کی۔‘‘
اس آیت کے نزول کے بعد کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بازو صرف حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے لیے پست رہے یا جمیع صحابہؓ کے لیے؟جواب بالکل واضح ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ‘تمام صحابہؓ کے ساتھ نرمی اختیار کرتے تھے ‘جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اتباع سے مراد جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم کا طرزِ عمل ہے نہ کہ