کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 48
(۲) دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت مبارکہ نجران کے اس عیسائی وفد کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو اللہ سے محبت کے دعوے دار تھے۔یہ قول مفسرین کی ایک جماعت کا ہے۔امام المفسرین ابن جریر طبریؒ کی بھی یہی رائے ہے۔امام قرطبیؒ ‘کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔
(۳) مفسرین کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت مبارکہ ان یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے﴿نَحْنُ اَبْنٰــؤُا اللّٰہِ وَاَحِبَّاؤُہٗط﴾‘(المائدۃ:۱۸)کا دعویٰ کیا تھا۔امام رازیؒ ‘علامہ مجد الدین فیروز آبادیؒ‘ علامہ سمرقندیؒاور امام بغویؒ نے اسی رائے کو اختیار کیا ہے۔بعض مفسرین نے دوسرے اور تیسرے دونوں اقوال کو اس آیت مبارکہ کا شان نزول قرار دیا ہے۔یعنی ان مفسرین کے نزدیک یہ آیت مبارکہ اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔اس رائے کے حاملین میں اما م ابن عطیہ ؒ‘ امام خازنؒ اور امام ابو حیان ا لاندلسیؒ وغیرہ شامل ہیں۔
(۴) ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ آیت مبارکہ ایک ایسی قوم کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اللہ سے محبت کی دعوے دار تھی۔یہ قوم کون تھی‘اس کا تعین اس قول میں موجود نہیں ہے۔یہ رائے حضرت حسن بصریؒ کی ہے۔
بعض مفسرین نے اس آیت مبارکہ کو اس کے شانِ نزول سے خاص کرنے کی بجائے اسے عام رکھا ہے۔مثلاً امام ابن کثیرؒ اور امام نسفیؒ وغیرہ۔صحیح بات بھی یہی ہے کہ آیت اگرچہ اپنے نزول کے اعتبار سے خاص ہے لیکن اس کا معنی عام ہے ‘جیسا کہ مفسرین کا قاعدہ ہے ’’العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب‘‘ یعنی کسی آیت کی تفسیر میں شانِ نزول کے اعتبار کی بجائے اس آیت کے الفاظ کے عموم کا اعتبار ہو گا۔شانِ نزول سے کوئی آیت مبارکہ کسی فرد یا ایک جماعت کے ساتھ خاص تونہیں ہوجاتی لیکن پھر بھی آیت کے معنی و مفہوم کو سمجھنے میں شانِ نزول کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے۔
اتباع کا لفظ قرآن میں معمولی فرق کے ساتھ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔قرآن میں یہ لفظ پیچھے چلنے اور پیروی کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ‘جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:﴿فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّـیْلِ وَاتَّبِعْ اَدْبَارَھُمْ﴾(الحجر:۶۵)اور:﴿لَوْ کَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا وَّسَفَرًا قَاصِدًا لاَّتَّـبَعُوْکَ﴾(التوبۃ:۴۲)اور:﴿ذَرُوْنَا نَتَّبِعْکُمْج﴾(الفتح:۱۵)اور:﴿قَالُوْالَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّا اتَّــبَعْنٰــکُمْ ط﴾(آل عمران:۱۶۷)اور:﴿فَاِذَا قَرَاْْنٰــہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَـہٗ.﴾(القیٰمۃ)۔
عام طور پر اطاعت اور اتباع کا فرق بیان کرنے کے لیے یہ کہا جاتا ہے کہ اطاعت حکم کی ہوتی ہے اور اتباع حکم کے بغیر ہوتی ہے ‘حالانکہ بعض اوقات اتباع کا لفظ قرآن میں کسی کا حکم ماننے اور ا س حکم کی پیروی کرنے کے لیے بھی استعمال ہوا ہے‘جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان﴿فَاتَّـبَعُوْا اَمْرَ فِرْعَوْنَج﴾(ھود:۹۷)اور﴿وَاتَّبَعُوْا اَمْرَ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ.﴾(ھود)ہے۔ان آیات میں مصدر کا صیغہ ’امر‘بمعنی اسم مفعول یعنی’مامور‘ہے اور مصدر کا اسم مفعول کے معنی میں استعمال قرآن میں عام ہے۔لہٰذا یہ