کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 38
حضرت عبد اللہ بن عمر نے حضرت بلال کو ان کے اس جواب پر سرزنش کی٭ لیکن خود حضرت عبد اللہ بن عمر بھی شرعی احکام پر عمل پیرا ہونے کے لیے اس اصول(یعنی سد الذرائع)کو مدنظر رکھتے تھے جس کی وجہ سے ان کے بیٹے نے اس حدیث پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔اموی خلیفہ سلیمان بن عبد الملک نے اپنے دورِ خلافت میں حجاج بن یوسف ثقفی کو حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی حجاز میں قائم شدہ خلافت کو ختم کرنے کے لیے بھیجا۔اس وقت دو افراد حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے: إِنَّ النَّاسَ صَنَعُوْا وَأَنْتَ ابْنُ عُمَرَ وَصَاحِبُ النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَمَا یَمْنَعُکَ أَنْ تَخْرُجَ؟فَقَالَ یَمْنَعُنِیْ أَنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ دَمَ أَخِیْ فَقَالَا اَلَمْ یَقُلِ اللّٰہُ﴿وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لاَ تَـکُوْنَ فِتْنَۃٌ﴾فَقَالَ قَاتَلْنَا حَتّٰی لَمْ تَکُنْ فِتْنَۃٌ وَکَانَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ وَأَنْتُمْ تُرِیْدُوْنَ أَنْ تُقَاتِلُوْا حَتّٰی تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِغَیْرِ اللّٰہِ؟(۱۰۰) ’’لوگوں نے امانت کو ضائع کر دیا(یعنی حق دار کو امارت و خلافت عطا نہ کی)اور آپ حضرت عمر کے بیٹے ہیں‘اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی بھی ہیں‘ پھر بھی آپ ان ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کیوں نہیں کرتے؟تو حضرت عبد اللہ بن عمرنے کہا مجھے اللہ کا یہ حکم ان کے خلاف خروج سے روکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان بھائی کے خون کو حرام کیا ہے۔تو اس شخص نے کہا:کیا اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نہیں دیا کہ ان سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہو جائے؟(یعنی حضرت عبد اللہ بن زبیر‘ کو بنو امیہ کے فتنے سے نکالنے کے لیے قتال ہونا چاہیے)تو حضرت عبد اللہ بن عمرنے جواب دیا:ہم نے قتال کیا تھا یہاں تک کہ فتنہ ختم ہو گیااور دین(یعنی اطاعت)اللہ ہی کے لیے ہو گیا اور تم یہ چاہتے ہو کہ تم قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ پیدا ہو اور دین غیر اللہ کے لیے ہوجائے؟‘‘ صحیح بخاری ہی کی ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عمر نے آکر کہاکہ آپ ہر سال حج و عمرہ تو کرتے ہیں لیکن اللہ کے راستے میں جہاد نہیں کرتے۔تو حضرت عبد اللہ بن عمرنے کہا:ارکان اسلام پانچ ہی ہیں ‘یعنی جہاد ان میں شامل نہیں ہے۔تو اس شخص نے کہا اللہ تعالیٰ نے تو یہ حکم دیا کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرائو اور اگر پھر ان میں کوئی ایک زیادتی کرے تو اس کے خلاف لڑو۔یہ شخص دراصل حضرت عبد اللہ بن عمر کو کہہ رہا تھا کہ﴿فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ﴾(الحُجُرٰت:۹)کی نص کے تحت آپ پر ظالم گروہ کے ساتھ قتال واجب ہے۔اس پر حضرت عبد اللہ بن عمر نے اسے وہ جواب دیا جو اوپر مذکور ہے۔ (۱۶) بعض اوقات کوئی امتی آپ کے حکم کے ظاہر کی بجائے آپ کے مقصود و منشا کو ملحوظ رکھتا ہے جس کی وجہ سے آپ کے ظاہری حکم پر عمل نہیں ہوتا۔اس صورت میں آپ کے ظاہری حکم پر عمل نہ کرنا ہی افضل ہوتا