کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 37
تراش خراش کر لیتے تھے۔اہل الحدیث علماء میں سے حافظ عبد اللہ محدث روپڑی،حافظ ثناء اللہ مدنی اور حافظ عبد الرحمن مدنی وغیرہم ایک متعین مقدار سے زائد ڈاڑھی کے بال لینے کے قائل ہیں۔واللہ اعلم بالصواب
(۱۴) بعض اوقات بعض مخصوص حالات میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرنے میں کسی فتنے کا اندیشہ ہوتا ہے جس کہ وجہ سے بعض علماء کے نزدیک ان حالات میں آپؐ کے اس حکم پر عمل کرنا سنت پر عمل شمار نہیں ہوتا۔مثلاً آپ کا حکم ہے:
((لاَ تَمْنَعُوْا إِمَائَ اللّٰہِ مَسَاجِدَ اللّٰہِ))(۹۶)
’’اللہ کی بندیوں(یعنی اپنی بیویوں)کو مسجدوں میں جانے سے مت روکو۔‘‘
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی بیوی کے مسجد جانے کو ناپسند کرتے تھے اور بعض اوقات اس کا اظہار بھی کر دیتے تھے۔ایک روایت میں ہے کہ ان کی بیوی سے کہا گیا:
لِمَ تَخْرُجِیْنَ وَقَدْ تَعْلَمِیْنَ أَنْ عُمَرَ یَکْرَہُ ذٰلِکَ وَیَغَارُ؟(۹۷)
’’آپ مسجد کے لیے گھر سے کیوں نکلتی ہیں جبکہ آپ جانتی ہیں کہ حضرت عمر اس کو ناپسند کرتے ہیں اور اس بات پرغیرت کھاتے ہیں؟‘‘
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے جب اپنے زمانے کے فتن کو دیکھا تو کہا:
لَوْ أَدْرَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ مَا أَحْدَثَ النِّسَائُ لَمَنَعَھُنَّ کَمَا مُنِعَتْ نِسَائُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ(۹۸)
’’اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آج کل کی عورتوں کے حالات دیکھتے تو عورتوں کو مسجد میں جانے سے روک دیتے جیسے کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیاتھا۔‘‘
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جب اپنے بیٹے بلال‘ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ روایت سنائی کہ اپنی بیویوں کو مسجد میں جانے سے نہ روکو توحضرت بلال نے جواباً کہا:
وَاللّٰہِ لَنَمْنَعُھُنَّ‘ فَقَالَ لَــہٗ عَبْدُ اللّٰہِ أَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ وَتَقُوْلُ اَنْتَ لَنَمْنَعُھُنَّ؟(۹۹)
’’اللہ کی قسم ہم تو اِن کو منع کریں گے‘‘۔تو حضر ت عبد اللہ بن عمرؓ نے کہا:’’میں تم سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتاہوں اور تم کہتے ہو کہ ہم منع کریں گے؟‘‘
بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت بلال نے اپنے والد کوکہا کہ ہمارے زمانے میں عورتیں اگر مسجد میں جائیں گی تو فتنے میں مبتلا ہو جائیں گے لہٰذا ہم انہیں مسجد میں جانے سے روکیں گے۔با وجودیکہ