کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 35
مَا اَنَا بِالَّذِیْ آمُرُکَ أَنْ تُطَلِّقَ امْرَأَتَکَ وَلَا أَنْ تَعُقَّ وَالِدَیْکَ ‘ قَالَ فَمَا أَصْنَعُ بِھٰذِہِ الْمَرْاَۃَ؟قَالَ ابْرَرْ وَالِدَیْکَ(۹۰) ’’میں تمہیں نہ تو یہ حکم دیتا ہوں کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دو اور نہ ہی یہ مشورہ کہ تم اپنے والدین کی نافرمانی کرو۔تو وہ شخص کہنے لگا کہ میں پھر اس عورت کا کیا کروں ؟تو حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے کہا:اپنے والدین سے حسن سلوک کرو۔‘‘ اسی طرح حضرت ابودردا ضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میر اباپ پہلے مجھے ایک لڑکی کے ساتھ شادی پر مجبور کرتا رہا اور جب میں نے اس سے شادی کر لی تو اب مجھے حکم دیتا ہے کہ میں اسے طلا ق دے دوں۔تو حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ نے کہا: مَا أَنَا بِالَّذِیْ آمُرُکَ أَنْ تَعُقَّ وَالِدَکَ وَلَا أَنَا بِالَّذِیْ آمُرُکَ اَنْ تَعُقَّ امْرَاَتَکَ غَیْرَ إِنَّکَ إِنْ شِئْتَ حَدَّثْتُکَ مَا سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَـقُوْلُ:((الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ فَحَافِظْ عَلٰی ذٰلِکَ إِنْ شِئْتَ أَوْ دَعْ))(۹۱) ’’میں تمہیں نہ تو یہ حکم دیتا ہوں کہ تم اپنے والدین کی نافرمانی کرواورنہ ہی یہ مشورہ کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دو۔ہاں اگر تم چاہو تو میں تمہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بیان کر دیتا ہوں۔آپؐ نے فرمایا:’’باپ جنت کے دروازوں میں سے درمیانی دروازہ ہے۔اگر تو چاہے تو اس کی حفاظت کر اور اگر چاہے تو اس کو چھوڑ دے۔‘‘[1] علامہ البانی ؒ نے اس حدیث کو ’صحیح ‘کہا ہے۔(۹۲) اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے جب اس مسئلے کے بارے میں سوال ہو تو آپ نے سائل سے کہا:اپنی بیوی کو طلا ق مت دے۔اس پر سائل نے جواباًحضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ والامذکورہ بالا واقعہ سنا دیا تو امام احمد ؒنے جواب دیا: إِذَا کَانَ أَبُوْکَ مِثْلَ عُمَرَ فَطَلِّقْھَا(۹۳) ’’اگر تیرا باپ بھی حضرت عمر ‘کی طرح ہے تو اپنی بیوی کو طلاق دے دے۔‘‘ سعودی علماء کی کمیٹی ’فتاوی اللجنۃ الدائمۃ‘ سے جب اس بارے میں سوال ہوا تو علماء نے یہ جواب دیا: علیک إقناع والدک بعدم طلق زوجتک‘ فإن أصر وجب علیک أن تطلقھا
[1] بعض روایات میں ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے پر سخت ناراض ہوئے تھے اور آخر عمر تک اس سے بات نہ کی ۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ بیٹے کا اسلوب مناسب نہ تھا ۔حدیث سننے کے بعد اس طرح کا رویہ نہیں ہونا چاہیے کہ انسان اس کو سنتے ہی رد کر دے ، بلکہ اس پر عمل نہ کرنے کا جواز حدیث کے ادب و احترام حدیث کو ملحوظ رکھتے ہوئے علمی انداز میں پیش کرنا چاہیے ۔