کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 34
گرد کے کتوں کو قتل کرنے کا جو حکم دیاوہ نہ تو کوئی شرعی حکم تھا اور نہ وہ منسوخ ہوا ‘بلکہ آپ کے زمانے میں پاگل کتوں کی تعداد بڑھ گئی جس کی وجہ سے آپ نے صحابہ‘ کو کتوں کو مارنے کا حکم دیا تا کہ مسلمانوں کو ضرر سے بچایا جا سکے۔بعد میں جب کافی تعداد میں کتے مار ے گئے تو آپ نے صحابہ‘ کو مزید کتوں کو مارنے سے منع کر دیا۔لہٰذا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاا صل مقصود مسلمانوں کو ضرر سے بچانا تھا نہ کہ کوئی شرعی حکم جاری کرنا اور پھر اس کو منسوخ کرنا۔جیسا کہ ایک صحیح روایت سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے حدودِ حرم میں جن پانچ چیزوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے ان میں ایک ’الکلب العقور‘ یعنی پاگل کتا بھی ہے۔
(۱۳) بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات بظاہر مطلق ہوتے ہیں لیکن در حقیقت وہ مطلق نہیں ہوتے۔ایسے احکامات اپنے اطلاق میں سنت نہیں ہوں گے۔مثلاً حضرت عبد اللہ بن عمر رجی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ:
کَانَتْ تَحْتِی امْرَاَۃٌ اُحِبُّھَا وَکَانَ اَبِیْ یَکْرَھُھَا‘ فَأَمَرَنِیْ اَبِیْ أَنْ أُطَلِّقَھَا‘ فَأَبَیْتُ‘ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَقَالَ:((یَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ طَلِّقِ امْرَأَتَکَ))(۸۴)
’’ایک خاتون میرے نکاح میں تھیں اور مجھے اس سے محبت تھی ‘لیکن میرے والد(یعنی حضرت عمر)کو وہ خاتون نا پسند تھیں‘ تو میرے والد نے مجھے حکم دیا کہ میں اس کو طلاق دے دوں۔میں نے انکار کر دیا۔پھر میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کاتذکرہ کیاتو آپؐ نے فرمایا:’’اے عبد اللہ بن عمر!اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔‘‘
اس روایت کو امام ترمذیؒ نے ’حسن صحیح‘ کہا ہے۔(۸۵)امام ابن العربی نے ’صحیح‘ اور ’ثابت‘ کہا ہے۔(۸۶)علامہ البانی ؒ نے ’حسن ‘کہا ہے۔(۸۷)شیخ احمد شاکر نے اس کی سند کو ’صحیح ‘کہا ہے۔(۸۸)
ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ اس بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمر کو کہا:((أَطِعْ أَبَاکَ))(۸۹)یعنی اپنے باپ کی اطاعت کر۔اب اس روایت سے یہ مسئلہ نکالنا کہ اگر باپ اپنے بیٹے کو یہ حکم دے کہ اپنی بیوی کو طلاق دو تو اس مسئلے میں باپ کی اطاعت مطلقاً واجب ہے‘ درست نہیں ہے۔’تحفۃ الاحوذی‘ اور ’نیل الاوطار‘ کے مصنفین نے اس حدیث کو دلیل بناتے ہوئے لکھا ہے کہ باپ کے حکم پر بیٹے کے لیے واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے چاہے کوئی شرعی عذر ہو یا نہ ہو اور اگر ماں بیوی کو طلاق کا حکم دے تو تین گنا زیادہ واجب ہے ‘کیونکہ حدیث میں ماں کا حق تین گنا زیادہ بیان کیا گیا ہے۔ہمارے نزدیک یہ موقف درست نہیں ہے۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس دو بدو آئے۔ان میں سے ایک نے کہا کہ میں اپنے اونٹ کی تلاش میں ایک قبیلے میں جا نکالا اور وہاں ایک لڑکی مجھے پسند آگئی تو میں نے اس سے شادی کر لی ‘لیکن میرے والدین نے قسم اٹھا کر یہ بات کی ہے کہ وہ اس لڑکی کو اپنے خاندان میں شامل نہیں کریں گے۔اس پر حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے اس بدو سے کہا: