کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 32
ان کے پاس آئے اگرچہ وہ بڑا ہی کیوں نہ ہو۔لیکن اُم سلمہؓ اورباقی تمام ازواج مطہرات نے اس بات سے انکار کر دیا کہ کوئی شخص اس طرح(بڑی عمر میں)ان کا رضاعی رشتہ دار بنے اور پھر اس کے لیے ازواج مطہرات کے پاس آنا جائز ہو۔یہ تمام ازواج گود کی(حالت میں)رضاعت کی وجہ سے اپنے ساتھ رضاعی رشتہ داری کو جائز قرار دیتی تھیں۔یہ ازواج حضرت عائشہؓ ‘کو کہتی تھیں کہ اللہ کی قسم!ہم تو یہی سمجھتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم صرف حضرت سالمؓ کے لیے تھا نہ کہ تمام لوگوں کے لیے۔‘‘
علامہ البانی ؒ نے اس روایت کو ’صحیح‘ کہا ہے۔(۸۰)امام ابو داؤد کے نزدیک بھی یہ روایت ’صالح ‘ہے۔
(۱۱) بعض اوقات آپ کے احکامات ’سدًّا للذریعۃ‘ ہوتے ہیں۔یعنی آپ ‘کوئی حکم بطور شریعت جاری نہیں کرتے بلکہ کسی شرعی حکم کی خلاف ورزی کی طرف لے جانے والے کسی سبب اور ذریعے سے منع کرتے ہیں‘حالانکہ وہ سبب اور ذریعہ بذاتہ شرعاً جائز ہوتا ہے۔آپ کے ایسے احکامات کی اتباع بھی ضروری نہیں ہے۔مثلاً ایک دفعہ آپ نے صحابہ‘ کو حکم دیا:
((إِیَّاکُمْ وَالْجُلُوْسَ فِی الطُّرُقَاتِ))قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَالَنَا بُدٌّ مِنْ مَجَالِسِنَا‘ نَتَحَدَّثُ فِیْھَا‘ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم:((فَإِذَا أَبَیْتُمْ إِلاَّ الْمَجْلِسَ فَأَعْطُوا الطَّرِیْقَ حَقَّہٗ))قَالُوْا وَمَا حَقُّـہٗ؟قَالَ:((غَضُّ الْبَصَرِ وَکَفُّ الْاَذٰی وَرَدُّ السَّلَامِ وَالْاَمْرُ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّھْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ))(۸۱)
’’راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!ہمارے لیے راستوں میں بیٹھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے‘ ہم یہاں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب تم نے میری بات سے انکار کر دیا اور بیٹھنے کی بات کی ہے تو پھر راستے کو اس کاحق دو۔‘‘صحابہ نے عرض کیا کہ راستے کا حق کیا ہے ؟آپ نے فرمایا:’’نظر کو جھکا کر رکھنا‘ کسی کو تکلیف دینے سے بچنا(تکلیف دہ چیز دور کرنا)‘ سلام کا جواب دینا‘ معروف کا حکم دینا اورمنکر سے منع کرنا۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا تھااور اس کی وجہ یہ تھی کہ صحابہ‘ کو معلوم تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کایہ حکم کوئی شرعی حکم نہیں ہے۔لہٰذا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صحابہ کے انکار پر ان پر کوئی دباؤ نہ ڈالا ‘بلکہ ان کو جس سبب سے یہ حکم جاری کیا تھا اس کی وضاحت کر دی ‘یعنی راستوں میں بیٹھو لیکن ان کا حق ادا کرو۔گویا مطلق راستے میں بیٹھنے سے منع کرنا آپ کا مقصود نہ تھا ‘بلکہ آپ‘نے یہ حکم کسی سبب سے جاری کیا تھا اور وہ سبب یہ تھا کہ راستوں میں بیٹھنا لوگوں کو اذیت دینے اور بے حیائی کی طرف لے جانے کا باعث بن سکتا ہے۔