کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 3
’’دین میں غلو سے بچو۔تم سے پہلی قومیں دین میں غلو کرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئیں۔‘‘
امام ابن تیمیہؒ نے اس حدیث کو مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح کہا ہے(۲)۔امام نوویؒ نے بھی اس کو مسلم کی شرائط پر صحیح کہا ہے۔(۳)علامہ البانی ؒ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے(۴)۔
ایک مثبت رویہ تو یہ ہے کہ ایک شخص اگر حدیث کی مترجم کتابوں سے استفادہ کرتا ہے اورا س دوران اسے کچھ اشکالات پیش آتے ہیں تو وہ﴿فَاسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ﴾کے قرآنی حکم کے مطابق علماء سے رجوع کر کے ان سے رہنمائی حاصل کرے۔اگر معاصر علماء سے وہ مطمئن نہیں ہے تو ٹھوس علمی بنیادوں پر علومِ اسلامیہ کی تعلیم حاصل کرے۔قرآن،حدیث ‘ فقہ المقارن‘ اصول فقہ‘ اصول حدیث‘ اصول تفسیر‘ عقیدہ‘ علومِ بلاغت اورعلومِ لغت وغیرہ میں پختگی حاصل کرے اور عربی زبان میں موجود ائمہ سلف کے علمی ذخیرے سے براہِ راست استفادہ کرے۔لیکن اگر کوئی شخص ان بنیادی دینی علوم سے ناواقف ہو اور پھر بھی دین کے معاملات میں اپنی رائے پیش کرے تو ایسے شخص کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جس میں اللہ تعالیٰ علماء کو اٹھا لیں اور لوگوں کی صورت حال یہ ہوگی:
((اِتَّخَذَ النَّاسُ رَئُ وْسًا جُھَّالًا‘ فَسُئِلُوْا فَاَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ‘ فَضَلُّوْا وَاَضَلُّوْا))(۵)
’’لوگ جہلاء کو اپنا بڑا بنالیں گے اور ان جاہلوں سے سوال کیا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتوے جاری کریں گے۔پس خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘
یہ اسی زمانے کی علامات ہیں کہ علماء کو اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ اٹھا رہے ہیں اور ترجمہ شدہ کتابوں کا جزئی طور پر مطالعہ کرنے والے فتوے جاری کرنے لگے ہیں۔علم دین کے حصول میں سند اور استاد کی کیااہمیت ہے‘ اس کی اِن شاء اللہ ایک مستقل مضمون میں وضاحت کروں گا۔فی الحال اصل مقصود اس فکر کا جائزہ لینا ہے کہ کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرہر قول اور فعل سنت ہے یانہیں ؟