کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 27
تکفیر نہیں کی جائے گی اگرچہ دنیا میں اس کوسخت ملامت کی جائے گی اور آخرت میں وہ عذابِ الٰہی کا مستحق ہو گا۔الشیخ عاصم الحداد لکھتے ہیں:
’’اور سب‘وہ(یعنی احناف)اور دوسرے(یعنی مالکیہ ‘ شافعیہ‘ حنابلہ ور اہل الحدیث)یہ کہتے ہیں کہ تکفیر اس شخص کی کی جائے گی جو کسی قطعی دلیل سے ثابت چیز کا انکار کر ے اور اس شخص کی تکفیر نہیں کی جائے جو کسی ظنی دلیل سے ثابت چیز کا انکار کرے۔اسے صرف فاسق یا گمراہ قرار دیا جا سکتاہے۔‘‘(۵۸)
(۶) بعض اوقات کسی مسئلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قول ہوتا ہے اور ایک شخص اس قول پر عمل کرنے کو سنت پر عمل سمجھ رہا ہوتاہے اور لوگوں کو بھی اس کی ترغیب و تشویق دلا رہا ہوتا ہے جبکہ آپ کا وہ قول آپ ہی کے کسی دوسرے قول یا فعل سے منسوخ ہوتا ہے۔عام اشخاص یا اہل علم کی بات تو کجا بعض اوقات بعض صحابہؓ‘ ‘کو بھی آپ ‘کی کسی سنت کے نسخ کا علم نہیں ہوتا تھا اور وہ منسوخ سنت پر خودبھی عمل کر رہے ہوتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب و تشویق دلا رہے ہوتے تھے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر صحابی ہر وقت آپ ‘کی مجلس میں موجود نہیں ہوتا تھا اس لیے ہر صحابی ‘کو ہر حدیث کا علم بھی نہیں ہوتا تھا۔حضر ت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((تَوَضَّئُوْا مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ))(۵۹)
’’جس کو آگ نے چھوا ہو اُس کے کھانے کے بعد وضو کرو۔‘‘
اسی طرح حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَلْوُضُوْئُ مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ وَلَوْ مِنْ ثَوْرِ أَقِطٍ))قَالَ فَقَالَ لَہُ ابْنُ عَبَّاسٍ یَا أَبَا ھُرَیْرَۃَ أَنَتَوَضَّأُ مِنَ الدُّھْنِ؟أَنَتَوَضَّأُ مِنَ الْحَمِیْمِ؟قَالَ فَقَالَ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ یَا ابْنَ أَخِیْ اِذَا سَمِعْتَ حَدِیْثًا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَلَا تَضْرِبْ لَــہٗ مَثَلاً(۶۰)
’’جس چیز کو آگ نے چھو ا ہو اُ س کے کھانے کے بعد وضو کروچاہے وہ پنیر کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔‘‘راوی کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے حضرت ابو ہریرہؓ سے دریافت کیا:کیا ہم چکناہٹ کی وجہ سے وضو کریں ؟کیا ہم گرم پانی کی وجہ سے بھی وضو کریں؟(کیونکہ گرم پانی کو بھی آگ چھوتی ہے)۔راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے جواب میں کہا:اے میرے بھتیجے!جب تمہارے سامنے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کی جائے تو اس کے لیے مثالیں نہ بیان کیاکرو۔‘‘
علامہ البانی ؒ نے اس روایت کو ’حسن‘ کہا ہے۔(۶۱)شیخ احمد شاکر نے اس کی سند کو ’صحیح‘ کہا ہے۔(۶۲)
اصل مسئلہ یہ ہے کہ شروع میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے