کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 26
احناف اس مکروہ کو مکروہ تنزیہی کہتے ہیں جبکہ جمہور علماء صرف مکروہ کہتے ہیں۔تمام ائمۂ اہل سنت
کے نزدیک اس کے منکر کی تکفیر نہیں ہو گی۔عامۃ الناس کو مکروہات سے بچنے کی ترغیب و تشویق بھی دلائی جائے گی۔
(۵) بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے کسی فعل کی حرمت معلوم ہوتی ہے۔مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:
((لَا یَبِعْ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَیْعِ بَعْضٍ وَلَا یَخْطُبْ بَعْضُکُمْ عَلٰی خِطْبَۃِ بَعْضٍ))(۵۶)
’’تم میں سے کوئی اپنے بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے اور نہ ہی کوئی اپنے بھائی کی منگنی پر منگنی‘کرے۔‘‘
اگر کسی شخص نے بذریعہ ایجاب و قبول کوئی سودا مکمل کر لیا ہے تو اس کے اس سودے پر سودا کرنا حرام ہے۔اسی طرح ا گر کسی شخص کا کسی خاندان میں رشتہ طے ہو چکا ہو تو وہاں اپنے رشتے کی بات چلانا حرام ہے سوائے اس کے کہ پہلا شخص دوسرے کو اجازت دے دے یا وہ اس جگہ نکاح کا اردہ ترک کر دے۔امام نوویؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
ھذہ الأحادیث ظاہرۃ فی تحریم الخطبۃ علی خطبۃ أخیہ و أجمعوا علی تحریمھا اذکان قد صرح للخاطب بالإجابۃ و لم یأذن و لم یترک(۵۷)
’’ان احادیث مبارکہ کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی مسلمان بھائی کی منگنی پر منگنی کرنا حرام ہے اور اُمت کا اس فعل کی حرمت پر اجماع ہے جبکہ لڑکی والوں نے پیغام بھیجنے والے کے پیغام کو صراحتا قبول کر لیا ہو اور پہلے شخص نے دوسرے کو نہ تو وہاں پیغام بھیجنے کی اجازت دی ہو اور نہ ہی اس جگہ نکاح کا ارادہ ترک کیا ہو۔‘‘
احناف ایسے فعل کو حرام کی بجائے مکر وہ تحریمی کہتے ہیں۔جمہور اور احناف کے نزدیک اس کی تعریف ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ حرام یامکروہ تحریمی سے مراد ایسا فعل ہے جس کے نہ کرنے کا شارع نے حکم دیا ہو اور اس کے نہ کرنے کو لازم بھی ٹھہرایا ہو۔اس کے مرتکب کو ملامت کی جائے گی اور اس کو آخرت میں عذاب بھی ہو گا۔احناف کے نزدیک اگر اس کا علم قطعی ذریعے یعنی قرآن ‘ خبر متواتر یا اجماع سے ہو گا تو یہ حرام ہے اور اگر اس کا علم ظنی ذریعے یعنی خبر واحد سے ہو گا تویہ مکروہ تحریمی ہے۔جبکہ جمہور اسے حرام ہی کہتے ہیں چاہے قرآن سے اس کا علم حاصل ہو یا خبر واحد سے۔ائمہ جمہور اور احناف کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ اگر کسی فعل کی حرمت بذریعہ سنت(یعنی خبر واحد)معلوم ہو اور اس سنت کا کوئی شخص انکار کر دے تو اس کی