کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 25
جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔ (۴) بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے کسی فعل کی کراہت ثابت ہوتی ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپؐکا فرمان ہے: ((لَا یَمْشِ اَحَدُکُمْ فِیْ نَعْلٍ وَاحِدَۃٍ))(۵۲) ’’تم میں سے کوئی شخص ایک جوتے میں نہ چلے۔‘‘ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جوتا پہن کر چلنے سے منع فرمایا ‘لیکن ایک جوتا پہن کر چلنا حرام نہیں ہے‘ بلکہ‘مکروہ ہے۔لہٰذا اس حدیث میں نہی کا صیغہ کراہت کے لیے ہے۔امام نووی ؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: یکرہ المشی فی نعل واحدۃ أو خف واحد(۵۳) ’’ایک جوتے یا ایک موزے میں چلنا مکروہ ہے۔‘‘ امام ترمذیؒ نے بھی اس حدیث کو بیان کرنے کے لیے ’ما جاء فی کراھیۃ المشی فی النعل الواحدۃ‘ کے الفاظ سے باب باندھ کر اس فعل کی کراہت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اسی طرح ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا تَتَمَنَّوْا لِقَائَ الْعُدُوِّ وَسَلُوا اللّٰہَ الْعَافِیَۃَ))(۵۴) ’’دشمن سے ملاقات کی تمنا نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو۔‘‘ اس حدیث میں دشمن سے ملاقات کی تمنا کرنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ تمنا کرنا مکروہ ہے۔جیسا کہ امام بخاریؒ نے ترجمۃ الباب’کراھیۃ تمنی لقاء العدو‘ میں اس کی کراہت کی طرف اشارہ کیاہے۔اسی طرح امام نووی ؒ نے ’صحیح مسلم ‘میں’کراھیۃ تمنی لقاء العدو‘ اور امام ابو داؤد نے سنن ابی داؤد میں ’فی کراھیۃ تمنی لقاء العدو‘ کے عنوان سے باب باندھ کر ا س فعل کی کراہت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اصولیین کی تعریف کے مطابق مکروہ سے مراد وہ فعل ہے جس کے نہ کرنے کا شارع نے حکم دیا ہو لیکن اس کے نہ کرنے کو لازم نہ ٹھہرایا ہو۔مکروہ کو ترک کرنا اولیٰ ہے۔الدکتور عبد لکریم زیدان مکروہ کے حکم کے بارے میں لکھتے ہیں: و حکم المکروہ أن فاعلہ لا یأثم و إن کان ملوما و أن تارکہ یمدح و یثاب اذا کان ترکہ للّٰہ(۵۵) ’’مکروہ کاحکم یہ ہے کہ اس کا کرنے والا گناہ گار نہ ہوگا اگر چہ اس کوملامت کی جائے گی اور اس کا تارک قابل مدح اور ثواب کا مستحق ہے جبکہ اس نے اس فعل کو اللہ کے لیے ترک کیا ہو۔‘‘