کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 24
علی الفعل و الترک… وان حکم المباح أنہ لا ثواب فیہ و لا عقاب‘ و لکن قد یثاب علیہ بالنیۃ والقصد کمن یمارس أنواع الریاضیۃ البدنیۃ بنیۃ تقویۃ جسمہ‘ لیقوی علی محاربۃ الأعداء(۵۱)
’’مباح سے مراد یہ ہے کہ شارع نے مکلف کو کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں اختیار دیا ہو…مباح کا حکم یہ ہے کہ اس میں نہ ثواب ہے اور نہ گناہ‘ لیکن اگر اچھی نیت اور ارادے سے کوئی مباح کام کرے گا تو اس کا ثواب ہو گا۔مثلاً کوئی شخص اس لیے ورزش کرتا ہے تا کہ اس کاجسم مضبوط ہو اور وہ دینِ اسلام کے دشمنوں سے جہاد کرے تو اس ورزش کا بھی ثواب ہو گا۔‘‘
فرض ‘ واجب اور مستحب کی طرح مباح کے قواعد و ضوابط کے بارے میں بھی اصولیین نے اصول کی کتابوں میں تفصیلی بحثیں کی ہیں۔مثلاً ایک بحث یہ ہے کہ کسی فعل کے مباح ہونے کے کیا قرائن اور دلائل ہوتے ہیں۔اس بارے میں الدکتور عبد الکریم زیدان نے ’الوجیز‘ میں عمدہ بحث کی ہے۔امام شاطبیؒ بھی ’الموافقات‘ میں مباح کے حوالے سے بڑی نفیس ابحاث لے کر آئے ہیں۔مثلاًامام شاطبیؒ فرماتے ہیں کہ بعض اوقات ایک مباح فعل فرض یا مستحب بھی بن جاتا ہے اور بعض اوقات مکروہ یا حرام بھی۔مثلاً قرآن میں﴿کُلُوْا وَاشْرَبُوْا﴾کا حکم ہے جو کہ اباحت کے لیے ہے ‘ یعنی جو چاہے کھانا کھائے اور جو چاہے نہ کھائے ‘لیکن اگر کوئی شخص مستقل کھانا چھوڑ دے اور موت کے قریب پہنچ جائے ‘جیسا کہ بھوک ہڑتال میں ہوتا ہے ‘تو اب اس کے لیے یہی حکم(یعنی کھانا کھانے کا)فرضیت کے درجے میں ہوگا۔اسی طرح اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرنا ایک مباح فعل ہے ‘لیکن اس مباح فعل پر مداومت اس فعل کوحرمت کے درجے تک پہنچا دے گی۔
قرآن و سنت میں امر کا صیغہ ہر وقت وجوب کے معنی میں نہیں ہوتا ‘جیسا کہ ناواقف لوگوں کا خیال ہے۔امام سبکیؒ نے ’جمع الجوامع‘ میں امر کے صیغے کے ۲۶ معانی کا تذکرہ کیا ہے۔بعض اصولیین نے امر کے صیغے کے سترہ اور بعض نے سولہ معانی بھی بیان کیے ہیں۔مثلاً وجوب‘ ندب‘ اباحت‘ تہدید‘ ارشاد‘ تأدیب‘ انذار‘ امتنان ‘ اکرام‘ امتہان‘ تکوین‘ تعجیز‘ اہانت‘ تسویہ‘ دعا‘ تمنی‘ احتقار‘ خبر‘ اعتبار‘ تعجب‘ تکذیب‘ مشورہ‘ ارادہ‘امتثال‘ اذن‘ انعام اور تفویض وغیرہ۔اصولیین نے امر کے یہ تمام معانی قرآن و سنت کی نصوص سے ثابت کیے ہیں۔طوالت کے خوف سے ہم ان تمام نصوص کو بیان نہیں کر رہے۔مثال کے طور پر﴿اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ﴾میں امر کا صیغہ دعا کے معنی میں ہے‘﴿ذُقْج اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْـکَرِیْمُ﴾(الدُّخان)میں اہانت کے لیے ہے اور﴿اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ﴾(حٰمٓ السجدۃ:۴۰)میں تہدید کے لیے ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ سنن جو کسی فعل کی اباحت سے متعلق ہیں ‘ان سنن پر عمل یا ان کی ترغیب و تشویق دین اسلام کا مطلوب و مقصود نہیں ہے ‘سوائے اس کے کہ وہ مباح استحباب یا وجوب کے درجے کو پہنچ جائے‘