کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 23
تیسری مرتبہ یہ اضافہ کیا کہ ’’جوچاہے پڑھ لے‘‘۔اور آپؐ نے تیسری مرتبہ ’جو چاہے‘ کے الفاظ اس لیے کہے کہ لوگ اس کو سنت(مؤکدہ)نہ سمجھ لیں۔‘‘ اس حدیث میں ‘’لِمَنْ شَائَ‘کے الفاظ سے واضح ہو گیا کہ آپؐ کا حکم استحباب کے معنی میں ہے۔دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ صحابہؓ سنت کا لفظ سنت مؤکدہ(یعنی ایسی سنت جس کا چھوڑنا باعث ملامت ہو)کے لیے بھی استعمال کرتے تھے‘ اسی لیے صحابیؓ نے یہ وضاحت کی کہ آپؐ نے ’لِمَنْ شَائَ‘کے ذریعے واضح کیا کہ لوگ اس عمل کو سنت(مؤکدہ)نہ بنا لیں۔امام ابن حجرؒ ا س حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: (أَنْ یَّتِخَذَھَا النَّاسُ سُنَّۃً)أی طریقۃ لازمۃ لا یجوز ترکھا أو سنۃ راتبۃ یکرہ ترکھا ولیس المراد ما یقابل الوجوب(۴۸) ’’ اس جملے سے مراد یہ ہے کہ لوگ اس کو کوئی ایسالازمی طریقہ نہ سمجھ لیں کہ جس کا ترک کرنا جائز نہیں ہوتا یا اس کو سنت مؤکدہ نہ بنا لیں کہ جس کو چھوڑنا مکروہ ہے۔یہاں اس حدیث میں سنت سے مراد وہ نہیں ہے جو واجب کے بالمقابل ہو۔‘‘ (۳) بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول مبارک کسی فعل کی اباحت بیان کرنے کے لیے ہوتا ہے۔مثلاً: ((حَدِّثُوْا عَنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ وَلَا حَرَجَ))(۴۹) ’’بنی اسرائیل سے بیان کرو(یعنی اسرائیلی روایات)اور اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔‘‘ اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید میں بنی اسرائیل سے متعلقہ مجمل واقعات کی تفصیل کے لیے بنی اسرائیل سے روایت کرنے کی اجازت دی ہے۔اس حدیث میں ’حَدِّثُوْا‘ امر کا صیغہ نہ ہی وجوب کے لیے ہے اور نہ ہی استحباب کے لیے‘ بلکہ یہ اباحت کے لیے ہے ‘یعنی بنی اسرائیل سے روایت کرنا جائز ہے بشرطیکہ وہ روایت احکامِ شرعیہ سے متعلق نہ ہو اور دوسرے یہ کہ وہ شریعتِ اسلامیہ کے بنیادی عقائد یا تعلیمات کے خلاف نہ ہو۔امام ابن حجرؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: حدثوا صیغۃ أمر تقتضی الوجوب فأشار إلی عدم الوجوب و أن الأمر فیہ للإباحۃ بقولہ و لا حرج(۵۰) ’’حَدِّثُوْا صیغہ امر ہے جو وجوب کا متقاضی ہے ‘لیکن آپؐ نے اس فعل کے عدم وجوب کی طرف اشارہ کیاہے۔لہٰذا یہاں امر اباحت کے معنی میں ہے ‘جیسا کہ‘ ’وَلَا حَرَجَ‘ کے الفاظ اس کی اباحت کی دلیل ہیں۔‘‘ مباح کی تعریف اور حکم کے بارے میں الدکتور عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں: المباح:ھو ما خیر الشارع المکلف بین فعلہ و ترکہ‘ و لا مدح و لا ذم