کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 22
کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔اس پر عمل کرنے والے کو ثواب ہو گا اور اس کے تارک کو دنیا میں ملامت کی جائے گی ‘لیکن آخرت میں عذاب نہیں ہو گا۔سنن مؤکدہ کے حکم کے بارے میں دو ابحاث بڑی اہم ہیں:
الف:اگر کوئی شخص کسی سنت مؤکدہ کو مستقل طور پر ترک کر دے تو یہ جائز نہیں ہے۔مثلاً کوئی ساری زندگی صرف فرض نماز پڑھتا رہے اور سنن مؤکدہ ادا نہ کرے تو شرعاً گناہ گار ہو گا۔
ب:اگر کوئی معاشرہ ‘ جماعت یا گروہ کسی سنت مؤکدہ کو کلی طور پر ترک کر دے تو یہ جائز نہیں ہے۔امام شاطبیؒ نے اس بارے میں ’الموافقات‘ میں بڑی عمدہ بحث کی ہے کہ ایک سنت مؤکدہ فرد کے اعتبار سے تو سنت ہوتی ہے لیکن اجتماع یا معاشرے کے اعتبار سے فرض کفایہ ہوتی ہے۔مثلاً نکاح کرنا جمہور علماء کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے۔اگر کوئی شخص ذاتی طور پرنکاح کی ضرورت محسوس نہ کرے یا کسی اور وجہ سے نکاح نہ کرے تو دنیا میں تو اسے بغیر کسی شرعی عذر کے نکاح نہ کرنے پر ملامت کی جائے گی لیکن آخرت میں وہ عذاب کا مستحق نہ ہو گا ‘لیکن کسی مسلمان معاشرے کے لیے یہ بالکل بھی جائز نہیں ہے کہ وہ اجتماعی طور پر نکاح کی سنت کو ترک کر دے۔ایسی صورت میں سارا معاشرہ گناہ گار ہو گا اور آخرت میں عذابِ الٰہی کا مستحق ہوگا۔
بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے کسی فعل کے مستحب ہونے کا علم ہوتا ہے اور یہ فعل سنتِ غیرمؤکدہ ہوتا ہے نہ کہ سنت مؤکدہ۔مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرمان کے الفاظ ہیں:
((اِنَّ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی لَا یَصْبُغُوْنَ فَخَالِفُوْھُمْ))(۴۵)
’’یہود اور عیسائی خضاب نہیں کرتے۔پس تم ان کی مخالفت کرو(یعنی خضاب کرو)۔‘‘
یہود و نصاریٰ کی مخالفت کے قرینے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس حدیث میں یہ حکم وجوب کے لیے ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ حکم استحباب کے لیے ہے‘ جیسا کہ صحابہؓ کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے ‘کیونکہ حضر ت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما وغیرہ خضاب کرتے تھے جبکہ حضرت علی‘ حضرت انس‘ حضرت اُبی بن کعب اور حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہم وغیرہ خضاب نہیں کرتے تھے۔(۴۶)وہ روایات جن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی رکھنے کاحکم دیاہے ان کا اسلوبِ بیان بھی ایسا ہی ہے کہ یہود و نصاریٰ کی مخالفت کرو یا مشرکین کی مخالفت کرواورداڑھی بڑھاؤ۔ان راویات میں داڑھی رکھنے کا حکم وجوب کے لیے ہے کیونکہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل اس بات پر قرینہ ہے کہ یہ امر وجوب کے لیے ہے۔
ایک اور روایت میں حضرت عبد اللہ المزنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((صَلُّوْا قَبْلَ صَلَاۃِ الْمَغْرِبِ))قَالَ فِی الثَّالِثَۃِ:((لِمَنْ شَائَ))کَرَاھِیَۃَ أَنْ یَّتَّخِذَھَا النَّاسُ سُنَّۃً(۴۷)
’’مغرب کی فرض نماز سے پہلے نماز(دو رکعت نفل)پڑھو۔‘‘آپؐ نے یہ بات تین مرتبہ کہی اور