کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 21
ذریعے ہوا ہواور دوسرا وہ جس کے منکر کی تکفیر نہیں کی جاتی اور اس سے مراد وہ فرض یا واجب ہے جس کا علم اخبار آحاد کے ذریعہ ہوا ہو۔‘‘(۴۲) خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ایسی سنت کے منکر پر دنیا میں کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جائے گا لیکن اس کو سخت ملامت کی جائے گی اورآخرت میں بھی سزا کا مستحق ہو گا۔اسی طرح ایسی سنت کے تارک کو بھی دنیا میں ملامت اور آخرت میں سزا ہو گی۔یہ بات ذہن میں رہے کہ خبر واحد سے ثابت ہونے والے کسی حکم کی فرضیت یا وجوبیت پر اگر علمائے اُمت کا اجماع ہوتو پھر اس سنت کے منکر کی اجماع کی خلاف ورزی کی وجہ سے تکفیر کی جائے گی۔ (۲) بعض اوقات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال سے استحباب ثابت ہوتا ہے۔مستحب سے مراد یہ ہے کہ شارعؑ نے کسی کام کے کرنے کا مطالبہ کیا ہو لیکن اس کو مکلف پر لازم قرار نہ دیا ہو۔بعض اوقات مستحب میں تاکید زیادہ ہوتی ہے اور بعض اوقات کم۔اسی لیے فقہاء نے اس کی دوقسمیں کی ہیں‘ یعنی مؤکدہ اور غیر مؤکدہ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال سے بعض اوقات سنت مؤکدہ ثابت ہوتی ہے۔مثلاً آپؐ کا ارشاد ہے: ((اِذَا دَخَلَ اَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلْیَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ قَبْلَ اَنْ یَجْلِسَ))(۴۳) ’’جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو وہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھ لے۔‘‘ یہ ذہن میں رہے کہ جمہور فقہاء اور محققین اصولیین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن و سنت میں جہاں بھی امر کا صیغہ آئے گا اس سے مراد فرضیت یا وجوب ہو گا‘لیکن اگر کچھ منصوص یا غیر منصوص قرائن ایسے ہوں جن سے معلوم ہو کہ یہ حکم یہاں لزوم کے لیے نہیں ہے تو پھر اس سے مراد استحبا ب لیا جائے گا۔بعض دوسری صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم یہاں وجوب کے لیے نہیں ہے۔ان روایات کو اما م عبد الرحمن مبارکپوریؒ نے سنن الترمذی کی شرح ’تحفۃ الاحوذی‘ میں بیان کیا ہے۔امام ابن حجرؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: واتفق أئمۃ الفتوی أن الأمر فی ذلک للندب(۴۴) ’’اہل فتویٰ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس حدیث میں امر کا صیغہ استحباب کے لیے ہے۔‘‘ لہٰذاتحیۃ المسجد کی دو رکعات سنت مؤکدہ ہے۔جہاں تک اس بات کا معاملہ ہے کہ یہ کیسے معلوم ہو گا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وجوب کے لیے نہیں ہے تو پھر سنت مؤکدہ ہے یا غیر مؤکدہ؟اس کا تعین بھی قرائن سے ہوگا اور یہ قرائن منصوص بھی ہوسکتے ہیں‘مثلاً دوسری احادیث مبارکہ‘ اور غیر منصوص بھی ‘مثلاً صحابہؓ‘ کا عمل وغیرہ۔امام عبد الرحمن مبارکپوری نے ’تحفۃ الاحوذی‘ میں اس موضوع سے متعلق کافی روایات کو اکٹھا کیا ہے جن کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تحیۃ المسجد کی دو رکعات سنت مؤکدہ ہیں نہ کہ غیر مؤکدہ۔طوالت کے خوف سے ہم ان روایات کو یہاں بیان نہیں کر رہے۔ جہاں تک سنت مؤکدہ کے حکم کا تعلق ہے تو ہم پہلے بھی اسے بیان کر چکے ہیں کہ سنت مؤکدہ کے منکر