کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 18
طور پر حجت قرار دینا سوائے غلو فی الدین اور شرعی نصوص کی خلاف ورزی کے اور کچھ نہیں ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سینکڑوں روایات ایسی ہیں جن میں آپؐ نے مسلمانوں سے قتال کو حرام قرار دیا ہے۔اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ پاکستانی افواج کافر ہیں لہٰذا ان سے قتال جائز ہے تواب دوصورتیں ہیں۔یا تو یہ فتویٰ لگانے والا مجتہد اور فقیہ ہے یا پھر عامی ہے۔پہلی صورت میں فتویٰ لگانے والا فتویٰ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے لہٰذا یا تو مجتہد مخطی ہو گا یا مصیب‘ جبکہ دوسری صورت میں فتویٰ دینے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں ہے لہٰذا لازماً مخطی ہی ہو گا۔جیسا کہ آپؐ ‘کا ارشاد ہے: ((مَنْ قَالَ فِی الْقُرْآنِ بِرَأْیِہٖ فَاَصَابَ فَقَدْ اَخْطَأَ))(۳۰) ’’جس نے قرآن کی تفسیر میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی‘ پس اگر وہ صحیح بھی ہو پھر بھی وہ خطاکار ہے۔‘‘ امام ابن حجرؒ نے اس روایت کو حسن کہا ہے۔(۳۱)امام ابن الصلاح نے اس کو ’دون الحسن‘ کہا ہے۔(۳۲)علامہ احمد شاکر نے اس کو ’صحیح ‘کہا ہے۔(۳۳)علامہ البانی ؒ نے اس کو ’ضعیف ‘کہا ہے۔(۳۴) شارحینِ حدیث نے وضاحت کی ہے کہ اس روایت سے مراد وہ افراد ہیں جو کہ قرآن کی تفسیر کی اہلیت نہیں رکھتے اور پھر بھی اس کی تفسیر کرتے ہیں۔تو گویا یہ حضرات قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرتے ہیں۔اب اگر کوئی شخص ضروری علومِ اسلامیہ سے ناواقف ہواور وہ قرآنی آیات کی تطبیق اسلامی معاشروں پر شروع کر دے اورمسلمانوں کے سوادِ اعظم کوکافر‘ مشرک اور منافق بنا دے توایسا شخص بھی اس حدیث کا مصداق ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کی اس قدر مذمت کی ہے کہ اگر اس کی رائے درست بھی ہو جائے تو پھر بھی وہ خطا کار ہے ‘یعنی آپؐ نے ایسے تمام مختصر راستے(Short cuts)بند کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ علومِ اسلامیہ کو سیکھے بغیر قرآن کی تفسیر و تعبیر کی طرف لے جانے والے ہوں۔ پس عامی اگر افواج پاکستان پر کفر کا فتویٰ لگائے تو وہ درحقیقت اپنے اوپر کفر کا فتویٰ لگا رہا ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((اِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِاََخِیْہِ یَا کَافِرُ فَقَدْ بَائَ بِہٖ أَحَدُھُمَا))(۳۵) ’’جب کوئی آدمی اپنے کسی مسلمان بھائی کو کہے:اے کافر!تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہو جاتاہے۔‘‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے مقصود یہ ہے اگر تو جس کو اس نے کافر کہا وہ واقعتا کافر ہوا تو یہ کہنے والا سچا ہے ‘اور اگرجس کو اس نے کافر کہا ہے وہ اللہ کے نزدیک کافر نہیں ہے توکہنے والا شخص خود کافر بن جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ علماء کفر کا فتویٰ لگانے میں بہت محتاط ہیں۔ جہاں تک اُخروی نجات کا معاملہ ہے تو اس کے بارے میں اہل سنت کا متفق علیہ عقیدہ یہی ہے کہ ہم کسی بھی مسلمان پرکسی فرض کی ادائیگی کے ترک یا حرام کے ارتکاب کی وجہ سے یہ فتویٰ نہیں جاری کریں