کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 17
قصاص کا فریضہ ادا نہیں ہوتا اور اگر کوئی اسلامی ریاست قصاص کے حکم کی ادائیگی کے لیے پھانسی کا طریقہ اختیار کرتی ہے تو اس کی اُخروی نجات ممکن نہیں ہے ؟حق بات یہ ہے کہ جس فرض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس کے طریقے کو بھی لازم قرار دیا گیا ہو اُس فرض کو اس طریقے کے مطابق ادا کرنا لازم ہے ‘لیکن جن فرائض میں صر ف فرض کی ادائیگی پر زور دیا گیا ہے‘ کوئی طریقہ لازم نہیں کیا گیا ان فرائض کی ادائیگی کے لیے سیرت النبیؐ سے رہنمائی لیتے ہوئے کوئی بھی ایساطریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے جس سے اس فرض کی ادائیگی بہتر طریقے سے ہو سکے ‘بشرطیکہ وہ طریقہ کسی شرعی نص کے خلاف نہ ہو۔مثلاً اللہ سبحانہ ٗوتعالیٰ نے ظلم کے خاتمے اور عدل کے قیام کے لیے قتال کو اُمت مسلمہ پر فرض قرار دیا ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے حالات و واقعات ا ور اسباب و وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اس فریضہ کی ادائیگی کے لیے کبھی صلح کی اور کبھی جنگ‘ آپؐ نے تلواروں سے جنگ لڑی اور گھوڑوں ‘ اونٹوں وغیرہ پر سفر کیا‘اپنے دفاع کے لیے کبھی خندق کھودی تو کبھی آگے بڑھ کر اقدام کیا‘آپؐ نے ہجرت بھی کی اوراللہ کے دشمنوں کو قتل بھی کیا اور معاف بھی کیا۔اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ہم نے بھی کسی مسلمان معاشرے مثلاً پاکستان میں ظلم کے خاتمے ‘ اللہ کے دین کی سر بلندی اور نظامِ عدل کے قیام کے لیے بعینہٖ اسی منہج کو اختیار کرنا ہے جس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دَور میں اختیار کیاتھا تو گویا وہ یہ کہہ رہاہے کہ ہمیں لازماً ہجرت بھی کرنی ہو گی٭ اورپاکستانی افواج سے قتال بھی‘غزوئہ بد ر کی طرح حکومت کے سرکاری خزانوں کو لوٹنے کے لیے اقدام بھی کرنا ہو گا اور غزوئہ اُحد کی طرح پاکستانی افواج سے لڑائی بھی‘ہمیں اپنے دفاع کے لیے خندق بھی کھودنی ہوگی اور صلح حدیبیہ کی طرح اللہ کے دشمنوں یعنی حکومت پاکستان سے صلح بھی کرنی ہو گی۔غزوئہ خیبر کی طرح اسرائیل پر بھی حملہ کرنا ہوگا اور فتح مکہ کی طرح دس ہزار کا لشکر لے کر حکومت پاکستان پر چڑھائی بھی۔یہ وہ نتائج ہیں جو اس طرزِ فکر سے لازماً برآمد ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس قول کے قائلین ان نتائج کو بقائمی ہوش و حواس قبول نہیں کریں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بحیثیت مجموعی ہمارے لیے ایک نمونہ ہے۔یعنی ہم سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی جزئیات اور تفصیلات سے قطع نظر اس سے من جملہ رہنمائی لے سکتے ہیں‘جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ﴾(الاحزاب:۲۱)
’’تمہارے لیے اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی)میں بہترین اسوہ ہے۔‘‘
اس آیت کے معنی و مفہوم پر ہم آگے چل کر تفصیلی بحث کریں گے۔لہٰذا اقامت دین کے فرض کی ادائیگی کے لیے سیر ت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مجموعی رہنمائی لیتے ہوئے عصر حاضر میں کوئی منہج اختیار کرنا تو درست بھی ہو گا اور مطلوب بھی ‘لیکن اقامت دین کے فرض کی ادائیگی کے لیے سیرت کو بالتفصیل یا جزئی