کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 15
اتفاق ہے کہ ایسا شخص ’کافر حقیقی‘ نہیں ہے کہ جس سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو یا آخرت میں دائمی جہنم کا مستحق ہو۔(۲۹)اس کے برعکس خوارج اور معتزلہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان احادیث کی وجہ سے گناہ کبیرہ کامرتکب دائرئہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔خوارج اس کو کافر بھی قرار دیتے ہیں جبکہ معتزلہ کافر نہیں کہتے‘ لیکن یہ دونوں گروہ اس بات پر متفق ہیں کہ وہ دائمی جہنمی ہے۔یہی وجہ ہے کہ خوارج نے صحابہ کرام ؓپر کفر کے فتوے لگائے اورحضرت علیؓ و معاویہ ؓ‘ جیسے جلیل القدر صحابہؓ کے خون کو مباح قرار دیا۔اگر خوارج اور معتزلہ کا نظریہ مان لیا جائے پھر تو معاذ اللہ!جنگ جمل اور جنگ صفین میں شامل تمام صحابہؓ ‘کافر ہو گئے تھے؟کیونکہ انہوں نے((لَا تَرْجِعُوْا بَعْدِیْ کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ))میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت نہ کی تھی۔ اب اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر بعض مفسرین مثلاً ابن کثیرؒ وغیرہ نے’فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ‘ سے مراد مسلمانوں کا ایک گروہ لیا ہے تو اس سے ان کی مراد یہ نہیں ہے کہ مسلمان آپؐ کی جزوی عدم اطاعت سے حقیقی کافر ہو جاتے ہیں ‘بلکہ ان کی مراد یہاں پر’کفر دون کفر‘ اور عملی کفر ہے۔امام ابن کثیرؒ کے شاگرد ابن ابی العز الحنفیؒ نے ’شرح عقیدہ طحاویہ‘ میں ’لاَ نُکَفِّرُ اَحَدًا بِذَنْبٍ‘ کے تحت اس موضوع پر کافی مفصل بحث کی ہے۔یہ بھی ذہن میں رہے کہ ’کفر دون کفر‘کی اصطلاح مابعد کے زمانوں کی نہیں ہے ‘بلکہ اسے سب سے پہلے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے استعمال کیا تھا۔ اوپر ہم اس مسئلے کو زیر بحث لائے ہیں کہ ایک شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کو لازمی حکم مانتا ہے ‘لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حکم میں اطاعت نہیں کرتاتو اس کا کیا حکم ہے ؟صحیح روایات اور ائمہ اہل سنت کی رائے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ایسا شخص عدم اطاعت کے باوجود کافر نہیں ہے۔اور اگر آپؐ نے اس مسئلے میں اپنی عدم اطاعت کو کفر قرار دیا ہے تو پھر بھی وہ شخص حقیقی کافر نہ ہو گا بلکہ مجازی یا عملی کافر ہو گا‘ جیسا کہ صحابہؓ بعض ایسے احکامات میں عدم اطاعت کے مرتکب ہوئے ہیں جن کے ارتکاب کو آپؐ نے کفر قرار دیا تھا۔اب دوسرے مسئلے کی طرف آتے ہیں کہ کوئی مسلمان اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی لازمی حکم کا انکار کر دے تو اس کا کیا حکم ہے۔اب اس انکار کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ وہ آپؐ کے اس لازمی حکم کو منسوخ سمجھتا ہو یا اس کی کوئی ایسی تأویل کرتا ہو کہ وہ لازمی حکم اس کے نزدیک لازمی نہ رہے [1] مستحب یا مباح کے دائرے میں چلا جائے۔یا وہ آپؐ کے اس حکم کوبعض حالات یا اسباب کے ساتھ خاص قرار دیتا ہویا کوئی بھی وجہ نہ ہو اور وہ اس کا انکار کر دے وغیرہ۔اگر کوئی شخص کسی سنت کو منسوخ سمجھے یا اس کی تأویل
[1] مثلاً پاکستان سے افغانستان کی طرف بلکہ انڈیا شاید اس ہجرت کے لیے زیادہ مناسب ہو کیونکہ وہاں مسلمانوں کی تعداد افغانستان کی نسبت زیادہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت اس علاقے کی طرف کی تھی جہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی