کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 13
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دیں تو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے انکار کر دیا۔اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے۔آپؐ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو بلوا کر کہا:أَطِعْ أَبَاکَ یعنی مزاحمت ترک کر کے اپنے اندر لچک پیدا کر اور اپنے باپ کی بات مان لے۔لہٰذا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے مراد آپؐ کے مقابلے میں ہر قسم کی مزاحمت ترک کرکے آپؐ پر ایمان لانااورآپؐ کی بات ماننا ہے۔
قرآن میں اطاعت کا لفظ کفار اور اہل ایمان دونوں کے لیے استعمال ہوا ہے ‘لیکن دونوں کے لیے اس کے معنی میں باریک فرق ہے۔قرآن میں جب کفار ‘ مشرکین‘اہل کتاب اور منافقین سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اس سے مراد رسولؐ کے بالمقابل مزاحمت ترک کر کے ان پر ایمان لانے میں ان کی بات ماننا ہے۔جیسا کہ حضرت نوح ‘ حضرت صالح‘ حضرت ہود ‘ حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہم السلام نے اپنی اپنی قوم کو﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ4﴾(الشُّعراء:۱۰۸‘۱۱۰‘ ۱۲۶‘ ۱۳۱‘ ۱۴۴‘ ۱۵۰‘ ۱۶۳‘ ۱۷۹)کا حکم جاری کیا۔ان آیات میں اطاعت سے مرادنبی پر ایمان لانے میں اس کی بات ماننا ہے ‘کیونکہ ایک شخص رسول کو رسول مانتا ہی نہ ہو تو اس سے اس چیز کا مطالبہ کرنا کہ وہ رسول کے احکامات پر عمل کرے ‘ عبث ہے ‘اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کسی بھی رسول کی ایسی اطاعت کا منکر کافر ہے۔
سورئہ آل عمران کی آیت﴿قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَج فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ﴾(آل عمران)میں اطاعت سے مراد رسول کے ایمان لانے کے مطالبے میں اس کی اطاعت ہے۔امام سیوطی ؒ نے’تفسیر جلالین‘ میں اس آیت کی تقدیر عبارت یوں بیان کی ہے:’قُلْ(لھم)اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ(فیما یأمرکم بہ من التوحید)فَاِنْ تَوَلَّوْا(أعرضوا عن الطاعۃ)فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ۔جمہور مفسرین امام ابن جریر طبری‘ امام رازی ‘ امام قرطبی ‘ امام بیضاوی‘ امام بغوی‘ امام ابن عطیہ ‘ علامہ ابن جوزی ‘ امام ابو حیان الاندلسی‘ علامہ آلوسی اور علامہ ابو بکر الجزائری رحمہم اللہ نے اپنی تفاسیر میں اس آیت کے شان نزول کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ آیت مبارکہ نجران کے عیسائی وفد کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو کہ اللہ سے محبت کرنے کے دعوے دار تھے۔بعض مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے یہ آیت مبارکہ ان یہود کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے﴿نَحْنُ اَبْنَائُ اللّٰہِ وَاَحِبَّاوُہٗ﴾کا دعویٰ کیا ہے۔﴿فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ﴾کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ یہ عبد اللہ بن ابی اور اس کے ان ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی جو صرف اللہ کی اطاعت کا دعویٰ کرتے تھے اور آپؐ ‘کی اطاعت کے انکاری تھے۔
ہمارے خیال میں یہ تینوں ہی اس آیت کے شان نزول ہو سکتے ہیں اور اس کے مصداقات بنتے ہیں۔اگر اس آیت میں اہل کتاب سے خطاب مراد لیا جائے‘ جیسا کہ جمہور مفسرین کی رائے ہے ‘تو پھر