کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 121
مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو چراغ جلاکے سونے سے منع فرمایا۔اب آپؐ ‘کا یہ حکم کسی سبب کے تحت تھا‘ جیسا کہ بعض دوسری روایات میں آتا ہے کہ مدینہ میں رات کے وقت ایک گھر میں آگ لگ گئی اورآپ ؐ کو اس کی خبر ہوئی تو آپؐ نے کہا:’’رات کو سونے سے پہلے چراغ بجھا دیا کرو۔‘‘اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات کو سونے سے پہلے چراغ اس لیے بجھا دیا کرو کہ کوئی چوہیا وغیرہ اس کی آگ سے کھیل کر پورے گھر کوآگ لگانے کا باعث نہ بن جائے۔پس اگر کوئی شخص اس روایت سے یہ حکم نکالے کہ رات کو سوتے وقت لائٹ جلانا جائز نہیں ہے یا لائٹ آف کر کے ہی سونا مستحب و پسندیدہ ہے توہمارے خیال میں یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں ہے۔اگر کوئی شخص کسی وجہ سے رات کولائٹ آن کر کے سوتا ہے تو سُنّت کی مخالفت نہیں کر رہا ہے۔اسی طرح سونا ایک مباح امر ہے اور دن و رات کے کسی بھی وقت میں انسان سو سکتا ہے بشرطیکہ فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو رہی ہو۔لہٰذا اگر کسی شخص کی ملازمت کی صورت ایسی ہے کہ وہ رات کو جاگتا ہے اور دن کو سوتا ہے مثلاً چوکیدار وغیرہ تو یہ سُنّت کی خلاف ورزی نہیں کر رہا ہے۔اسی طرح اگر کوئی رات کو دیر تک جاگتا رہے اور اپنی نیند پوری کرنے کے لیے فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعدسو جائے تو یہ بھی سُنّت کی خلاف ورزی نہیں ہے ‘کیونکہ کوئی ایسی صحیح روایت مروی نہیں ہے کہ جس میں صبح کی نماز کے بعد سونے سے منع کیاگیا ہو۔ہاں ایسی روایت ضرور موجود ہے جس میں عشاء کی نماز سے پہلے سونے سے منع کیا گیا ہے ‘لیکن اس کا سبب بھی یہ ہے کہ رات کی نماز ضائع نہ ہو جائے‘ کیونکہ بعض دوسری صحیح روایات میں موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات عشاء کی نماز کے لیے اپنے حجرے سے رات گئے نکلتے تھے اور صحابہؓ اس دوران نماز کے انتظار میں مسجدمیں سو رہے ہوتے تھے۔پس اگر نماز کے ضائع ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو ضرورت کے تحت عشاء سے پہلے سونے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔اسی طرح زمین پریا کسی چارپائی و پلنگ وغیرہ پر سونا یا نہ سونابھی کوئی دین کا موضوع نہیں ہے۔انسان جہاں چاہے سو جائے۔ پس ہمارے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض افعال تو واقعتاً ایسے ہیں جو سنن شرعیہ کا درجہ رکھتے ہیں ‘اور ایسے اعمال بلاشبہ ۲۴ گھنٹوں میں ہزاروں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں‘ جیسا کہ ہم نے ایک سونے کے عمل کے بارے میں ۲۰ سنن نقل کر دی ہیں‘لیکن آپؐ کے بعض اعمال و افعال ایسے ہیں جو سنن شرعیہ کا درجہ نہیں رکھتے ‘بلکہ زیادہ سے زیادہ ان کے بارے میں جو حکم لگایا جا سکتا ہے وہ اباحت یا جواز کا ہے۔پس آپؐ کے ایسے افعال جو اباحت کے درجے میں ہیں‘ کی ترغیب و تشویق کی بجائے ہمیں عامۃ الناس کو فرائض کی ادائیگی‘ محرمات سے اجتناب اور ایسی سنن کی پابندی کی تلقین کرتے رہنا چاہیے جن کے استحباب کے بارے میں واضح قرائن موجود ہیں۔عامۃ الناس کی اکثریت تو ایسی ہے جو فرائض کو ادا نہیں کر رہی اور محرمات سے اجتناب نہیں کرتی‘ ان کو عمامے یا تہبندکی ترغیب و تشویق دلانا دعوتِ دین کی حکمت کے بھی منافی ہے۔جتنا وقت ہم لوگوں کو عمامے اور تہبند کی تلقین میں صرف کرتے ہیں اگر وہی وقت