کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 118
کرو۔اس کی مثال اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سونا‘ کھانا‘ پینا اور نکاح کرنا وغیرہ ہے۔یہ واضح رہے کہ ان افعال کی بعض ہیئات ایسی ہوتی ہیں کہ جن کے ساتھ کوئی نہ کوئی امر یا نہی لاحق ہو تی ہے۔پس کھانے کے فعل کے ساتھ بعض اوقات کوئی امر متعلق ہوتا ہے اور بعض اوقات کوئی نہی لاحق ہوتی ہے۔مثلاً دائیں ہاتھ سے کھانا‘ دائیں ہاتھ سے پینا‘ کھانے‘ پینے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا ‘ کھانے پینے کے بعد الحمد للہ کہنا‘ ایسی چیز نہ کھانا جو کہ مضرت رساں ہو(لہٰذا ان صفات کے ساتھ کھانا ‘ پینا مستحب ہے)۔اسی طرح سونے کے فعل میں یہ مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باوضو اور دائیں پہلو پر سوتے تھے(لہٰذا اس طرح سے سونا مستحب اور باعث اجر و ثواب ہے)۔اور سونے سے پہلے ذکر اذکار کرتے تھے۔جہاں تک مجر د سونے یا کھانے کے فعل کا تعلق ہے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ افعال جبلی تقاضے کے تحت کیے تھے لہٰذا ان کے ساتھ کوئی امر یا نہی متعلق نہیں ہے۔دوسری قسم ان افعال کی ہے جن کو آپؐ نے عادتاً(رواج کے تحت)کیاہو۔یہ افعال بھی مباح ہیں۔مثلا کھانے ‘ پینے اور لباس کی کیفیات وغیرہ عادات کی قبیل سے ہیں۔لیکن بعض اوقات شارع بعض افعال میں بعض کیفیات کے اختیار کا حکم دیتے ہیں اور بعض کیفیات سے منع کرتے ہیں‘ مثلاً یہ کہ اس طرح سے کھائے یا اس طرح سے پیے یا اس ہیئت کے ساتھ کھائے یا اس ہیئت کے ساتھ سوئے۔پس آپؐ نے جو کام عادتاً کیے ہیں تو ان افعال کے بارے میں ہم یہ نہیں کہتے کہ انسان کو یہ لازمی حکم ہے کہ ان افعال میں آپؐ کی پیروی کرے کیونکہ ان افعال کے ساتھ کوئی امر یا نہی لاحق نہیں ہے۔بلکہ اصل سُنّت تو یہ ہے کہ انسان عادی امور میں اپنے علاقے اور زمانے کے رسم و رواج کے مطابق عمل کرے جب تک کہ وہ رسم و رواج شریعت کے خلاف نہ ہو۔مراد یہ ہے کہ انسان اپنے ملکی رواج کی پیروی کرے۔اس کی مثال اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمامہ پہننا ہے۔لیکن اگر کسی شخص کے ملک میں لوگوں کا عرف یہ ہے کہ وہ عمامہ نہیں پہنتے تو انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے زمانے اور علاقے کے لوگوں کی موافقت کرے(اور عمامہ پہننے کی بجائے اپنے علاقے کے رواج کے مطابق لباس مثلاً)سعودی رومال وغیرہ پہنے۔پس انسان اپنے علاقے کے لوگوں کی موافقت اس وقت تک کرے گا جب تک شرع کی مخالفت نہ ہوکیونکہ اگر وہ اپنے علاقے کے لوگوں کے لباس کی مخالفت کرے گا تو اس کا لباس شہرت کا لباس بن جائے گا۔اسی طرح آپؐ نے گدھے اور گھوڑے کی سواری کی جبکہ آج ان علاقوں میں گھوڑوں اور گدھوں کی سواری نہیں ہوتی۔پس کیا ہم کسی شخص سے یہ کہیں کہ تم آج بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت و اتباع میں گھوڑے یا گدھے کی سواری کرو یا ہم لوگوں سے یہ کہیں کہ آپ اور لوگوں کی طرح گاڑی و غیرہ کی سواری کریں کیونکہ اس مسئلے میں اپنے علاقے کے لوگوں کی موافقت اس شخص کو شہرت سے دور رکھے گی۔اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں گھوڑے پر آج اس لیے سفر کرتا ہوں تاکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کروں تو ہم اس سے یہ کہیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فعل کے ذریعے اپنے زمانے اور علاقے کے لوگوں کی موافقت کی(یعنی آپؐ نے وہ سواری