کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 114
موقف ہے۔جبکہ علماء کی ایک دوسری جماعت کا کہنا یہ ہے کہ ہمارے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے افعال میں آپؐ کی اتباع واجب ہے اور ان افعال کا کرنا آپؐ پر بھی واجب ہے اور امت پر بھی۔یہ امام مالکؒ کا مذہب ہے اور شوافع میں سے ابو العباس‘ اصطخری‘ابن ابی ہریرۃاورابن خیران رحمہم اللہ کابھی یہی موقف ہے۔حنابلہ اور معتزلہ کی ایک جماعت نے بھی اسی موقف کو اختیار کیاہے۔‘‘(۲۷)
امام جصاص(ؒ متوفی ۳۷۰ھ)احناف کے اس موقف کے دلائل کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اگر یہ کہا جائے کہ اگرتم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے فعل(کہ جس کی صفت وجوب‘ ندب یا اباحت معلوم نہ ہو)کو مباح سمجھ کر عمل کر لیاتو تم اس اندیشے سے بے خوف نہیں ہو سکتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کو مندوب یاواجب سمجھ کر کیا ہواور تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ہو۔ایسے شخص کو یہ جواب دیا جائے گا:اگر آپؐ نے اس فعل(کہ جس کی صفت معلوم نہ ہو)کو مندوب یا واجب سمجھ کر کیا ہوتا تو آپؐ اپنے اس فعل کی اس صفت کو ضرور بیان کرتے ‘کیونکہ ہم اس کے محتاج ہیں۔پس جب آپؐ نے اپنے کسی فعل کی صفت واضح نہیں کی تو ہمیں یہ معلوم ہو گیا کہ آپؐ نے ہمیں یہ فعل کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے اور آپؐ کا یہ فعل ہمارے حق میں مباح ہے۔پس اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ آپؐ نے اگر اس فعل(کہ جس کی صفت واضح نہیں ہے)کو مباح سمجھ کر کیا تھا توآپؐ اس کی اباحت کو ہی واضح کر دیتے(لیکن آپؐ نے اس کی اباحت کو واضح نہیں کیا)پس جس طرح آپؐ کے لیے یہ جائز تھا کہ آپؐ ایک مباح کام کریں اور اس کی اباحت کو بیان نہ کریں تو اسی طرح آپؐ کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ آپ ؐ کسی کام کو مندوب یا واجب سمجھ کر کریں اور اس کے ندب یا وجوب کو بیان نہ کریں۔ہم اس کو شخص کو یہ جواب دیں گے:یہ لازم نہیں ہے کہ ایسا ہی ہو۔آپؐ کے لیے یہ تو جائز تھا کہ آپؐ تمام کے تمام مباحات کو بیان نہ کریں جبکہ ہمارے دین میں تمام مباحات سے واقفیت ضروری نہیں ہے‘کیونکہ مباحات کے ارتکاب پر نہ تو کوئی ثواب ہے اور نہ ہی ان کے انکار پر کوئی سزا ہے۔جہاں تک مندوب و واجب کا تعلق ہے تو اس کے بیان کو ترک کرنا آپؐ کے لیے جائز نہیں تھاکیونکہ ہم مندوب و واجب کی معرفت کے محتاج ہیں تاکہ مندوب کے کرنے سے ثواب ہو اور واجب کو ترک کرنے سے ہم محرمات میں نہ جا پڑیں۔‘‘(۲۸)
٭ جیسا کہ امام جصاصؒ نے بیان کیا ہے ‘ایک اہم نکتہ اس بحث میں یہ ہے کہ آپؐ کے اس قسم کے تمام افعال کو بھی علمائے احناف نے واجب یا مستحب قرار نہیں دیا ہے بلکہ ان افعال میں بھی ایک قسم ’مباح‘ ہے کہ جس کے ارتکاب پر کسی امتی کے لیے اجر و ثواب کا کوئی عقیدہ رکھنا درست نہیں ہے۔
٭ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن کی وہ عمومی آیات کہ جن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مطلق اتباع کا تذکرہ ہے ‘ ان سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید آپ ؐ کی یہ اتباع آپؐ کے ہر ہر فعل میں امت کے حق میں واجب یا فرض ہے۔امام سرخسیؒ(متوفی۴۸۳ھ)ان آیات کی وضاحت کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں: