کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 113
الإمام و سائر الأصولیین قسموھا علی ثلاثۃ أقسام واجب‘ مستحب و مباح(۲۵)
’’پھر امام بزدویؒ اور امام سرخسی ؒ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ان افعال کے علاوہ جو کہ بھول چوک میں سے ہیں یا قصد اً نہیں ہیں ‘باقی افعال کو چار قسموں فرض‘ واجب‘ مستحب اور مباح میں تقسیم کیا ہے‘جبکہ امام ابوبکر جصاصؒ اور باقی اصولیین نے ان کو واجب ‘ مستحب اور مباح میں تقسیم کیا ہے۔‘‘
چوتھی قسم:یہ قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارادی افعال پر مشتمل ہے جن کی صفت یعنی ان کا فرض‘ واجب ‘ سُنّت یا مباح ہونا واضح نہ ہو‘نہ آپؐ کے حق میں اور نہ ہی امت کے حق میں۔امام سرخسیؒ فرماتے ہیں:
وکان أبو الحسن الکرخی رحمہ اللّٰه یقول:إن علم صفۃ فعلہ أنہ فعلہ واجبا أو ندبا أو مباحا فإنہ یتبع فیہ بتلک الصفۃ‘ وإن لم یعلم فإنہ یثبت فیہ صفۃ الإباحۃ‘ ثم لا یکون الاتباع فیہ ثابتا إلا بقیام الدلیل وکان الجصاص رحمہ اللّٰه یقول بقول الکرخی رحمہ اللّٰه إلا أنہ یقول:إذا لم یعلم فالاتباع لہ فی ذلک ثابت حتی یقوم الدلیل علی کونہ مخصوصا وھذا ھو الصحیح.(۲۶)
’’اور امام ابو الحسن کرخیؒ فرماتے تھے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کی صفت معلوم ہو کہ وہ واجب ہے یا مندوب یا مباح‘ تو ا س فعل میں آپؐ کی اتبا ع اسی صفت کے ساتھ ہو گی اور اگر اس فعل کی صفت آپؐ کے حق میں معلوم نہ ہو تو آپؐ کا وہ فعل مباح متصور ہو گااور اس فعل میں(امت کے لیے)آپؐ کی اتباع اسی وقت ثابت ہو گی جبکہ اس کی کوئی دلیل ہو۔امام جصاصؒ کا بھی وہی موقف ہے جوکہ امام کرخیؒ کاہے(یعنی آپؐ کے جن افعال کی صفت معلوم نہ ہو وہ مباح افعال متصور ہوں گے)لیکن وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر آپؐ کے کسی فعل کی صفت معلوم نہ ہو(تو وہ مباح تو ہوگا)لیکن اس میں آپؐ کی اتباع ثابت ہے الا یہ کہ اس فعل کے آپؐ کے ساتھ مخصوص ہونے کی کوئی دلیل ہو۔‘‘
علامہ علاؤ الدین بخاریؒ(متوفی ۷۳۰ھ)لکھتے ہیں:
’’اگر آپؐ کے کسی فعل کی صفت معلوم نہ ہو(کہ وہ واجب ہے یا مندوب یا مباح)اور اس فعل کا تعلق معاملات سے ہو تو بالاجماع وہ فعل مباح ہے۔ابو الیسرؒ نے اسی طرح کہا ہے۔اور اگر وہ فعل(جس کی صفت معلوم نہ ہو)عبادات سے متعلق ہوتو اس کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔بعض علماء کا کہنا یہ ہے کہ آپؐ کے ایسے افعال کے بارے میں توقف کیاجائے گااور ان پر وجوب‘ ندب یا اباحت میں سے کوئی بھی حکم نہ لگایا جائے گااور ہمارے لیے آپؐ کے ایسے افعال میں اتباع اس وقت تک ثابت نہ ہوگی جب تک کہ کوئی ایسی دلیل نہ ہو جو اس فعل کے وصف(یعنی وجوب ‘ ندب یا اباحت)کو ظاہر کر دے اور امت کی اس فعل میں آپؐ کے ساتھ شرکت کو بھی ثابت کرے۔عام اشاعرہ اور شوافع کی ایک جماعت امام غزالی ‘ ابوبکر دقاق اور ابو القاسم بن کج رحمہم اللہ وغیرہ کا یہی