کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 112
کریں جس ارادہ و نیت سے آپؐ نے کیاہے۔‘‘
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال جن کی صفت آپؐ کے حق میں معلوم ہو‘ان افعال کی پیروی و اتباع اسی صفت کے ساتھ جائز ہے۔یعنی اگر واجب کو واجب ‘ مندوب کو مندوب اور مباح کو مباح سمجھ کر کیا جائے۔
٭ امام ابوبکر جصاص ؒ(متوفی ۳۷۰ھ)کی مذکورہ بالا عبارت میں ایک اہم نکتہ جو بیان ہوا ہے وہ متابعت یا اتباع کی تعریف ہے۔امام صاحب ؒ کے بقول آپؐ نے جس فعل کو مباح سمجھ کر ادا کیا تو امت کے لیے بھی یہ لازم ہے کہ اسے مباح سمجھ کر ادا کرے اور جس فعل کو آپؐ نے مستحب جانتے ہوئے ادا کیا تو امت بھی اس فعل کی ادائیگی کے وقت اس کے مستحب ہونے کا عقیدہ رکھے۔اگر آپؐ نے کسی فعل کو مباح سمجھا اور امت نے اس کو مستحب بنادیا یا آپؐ نے کسی فعل کو مستحب سمجھ کر ادا کیا اور امت نے اسے واجب بنا تے ہوئے اس پر عمل شروع کر دیا تو یہ آپؐ کی اتباع یا متابعت تصور نہیں ہوگی۔اس کا واضح معنی و مفہوم یہی ہے کہ اگر آپؐ نے کدو تقرب الی اللہ یا ثواب کی نیت سے نہیں کھائے بلکہ مباح سمجھ کر کھائے ہیں تو اگر کوئی امتی کدو کھانے کے فعل کو مستحب بنا لے اور اس کے کھانے کو باعث ثواب سمجھے تو اس نے ایک ایسے فعل کو مستحب بنا دیا جو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مباح تھا۔اسی کوحضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اتباع میں امام ابن تیمیہؒ نے’مجموع الفتاویٰ‘ میں بدعت کانام دیا ہے۔امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ کسی امتی کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ وہ اس فعل کو مستحب(یعنی باعث اجر و ثواب)قرار دے جس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فعل سے مباح قرار دیا ہے؟فافھم و تأمل!
٭ دوسرا اہم نکتہ اس بحث میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے تمام افعال کو بھی علمائے احناف نے واجب یا مستحب قرار نہیں دیا ہے بلکہ ان افعال میں بھی ایک قسم مباح ہے جس کے ارتکاب پر کسی امتی کے لیے اجر و ثواب کا کوئی عقیدہ رکھنا درست نہیں ہے۔امام ابوبکر جصاص ؒ فرماتے ہیں:
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال جو آپؐ سے قصدو ارادے سے صادر ہوئے ہوں‘ تین قسم پر ہیں:واجب‘ مندوب اور مباح‘ سوائے ان افعال کے جن کے بارے میں کوئی دلیل ہو کہ وہ ان صغائر میں سے ہیں جن کی معافی ہو چکی ہے۔‘‘(۲۴)
٭ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ امام جصاص ؒ(متوفی ۳۷۰ھ)اور تقریباًتمام اصولیین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادی افعال کی تین قسمیں بنائی ہیں اور فرض و واجب کو علیحدہ علیحدہ بیان نہیں کیا جبکہ امام سرخسیؒ(متوفی۴۸۳ھ)اور امام بزدوی ؒ(متوفی۴۸۳ھ)نے فرض اور واجب کے فرق کو بیان کرتے ہوئے آپؐ کے ارادی افعال کی چار قسمیں بنائی ہیں۔علامہ علاؤا لدین بخاری ؒ(متوفی ۷۳۰ھ)لکھتے ہیں:
ثم الشیخ و شمس الأئمۃ رحمھما اللّٰه قسما أفعالہ علیہ السلام سوی الزلۃ و ما لیس عن قصد علی أربعۃ أقسام فرض و واجب و مستحب و مباح و القاضی