کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 111
تیسری قسم:یہ قسم سہو و جبلی افعال کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادی افعال پر مشتمل ہے۔آپ ؐکے ارادی افعال کی بھی فقہائے احناف نے دو قسمیں بنائی ہیں۔پہلی قسم آپؐ کے ان افعال پر مشتمل ہے جن کی صفت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں واضح ہو ‘یعنی ان افعال کاآپ ؐکے حق میں فرض‘ واجب‘ مستحب یا مباح ہونا معلوم ہو۔امام سرخسیؒ(متوفی۴۸۳ھ)فرماتے ہیں:
وکان أبو الحسن الکرخی رحمہ اللّٰه یقول:إن علم صفۃ فعلہ أنہ فعلہ واجبا أو ندبا أو مباحا فإنہ یتبع فیہ بتلک الصفۃ(۲۱)
’’ابو الحسن کرخی ؒ فرماتے تھے کہ اگر آپؐ کے کسی فعل کی صفت معلوم ہو جائے کہ آپؐ نے اس کو واجب‘ مندوب یامباح سمجھ کر کیا ہے تو آپؐ کی اس فعل میں پیروی اسی صفت(یعنی وجوب‘ ندب یا اباحت)کے ساتھ کی جائے گی۔‘‘
علامہ علاؤ الدین بخاریؒ(متوفی ۷۳۰ھ)لکھتے ہیں:
ثم بعد ذلک إما أن علمت صفۃ ذلک الفعل فی حقہ علیہ السلام أو لم تعلم‘ فإن علمت فالجمھور علی أن أمتہ مثلہ… وذھب شرذمۃ إلی أن حکم ما علمت صفتہ کحکم مالم تعلم صفتہ ھکذا ذکر بعض الأصولیین(۲۲)
’’پھر اس کے بعد یا تو اس فعل کی صفت(یعنی اس کا واجب‘ مندوب یا مباح ہونا)آپؐ کے حق میں معلوم ہو گا یا نہیں۔اگر تو آپؐ کے حق میں اس فعل کی صفت معلوم ہے تو جمہور علماء کا قول یہ ہے کہ آپؐ کی امت بھی(اس فعل پر عمل کرنے میں)آپ کی مانند ہو گی…اور ایک چھوٹی جماعت کا کہنا یہ ہے کہ آپؐ کے جن افعال کی صفت معلوم ہو ان کا حکم بھی ان افعال جیسا ہی ہے جن کی صفت معلوم نہ ہو۔بعض اصولیین نے اسی طرح اس کا ذکر کیا ہے۔‘‘
و الاتباع:أن یفعل مثل فعلہ‘ و فی حکمہ‘ فإذا فعلہ واجبا‘ فعلنا علی الوجوب‘ و إذا فعلہ ندبا‘ أو مباحا‘ فعلناہ کذلک‘ لنکون قد وفینا الاتباع حقہ… فکان الاتباع و التأسی:أٔن نفعل مثل ما فعلہ‘ علی الوجہ الذی فعلہ علیہ(۲۳)
’’اتباع سے مراد یہ ہے کہ کوئی امتی ویسا ہی کام کرے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیاہے اور اس کام کے حکم میں بھی آپؐ کی اتباع کرے۔یعنی جب آپؐ نے ایک کام کو واجب سمجھ کر کیا ہے تو ہم بھی اس کو واجب سمجھ کر کریں اور اگر آپؐ نے کسی فعل کو مندوب یا مباح سمجھ کر کیا ہو تو ہم بھی اسے مندوب یا مباح سمجھ کر کریں ‘تاکہ ہم اتباع کا صحیح معنی میں حق ادا کرنے والے ہو جائیں…پس اتباع اور پیروی سے مراد ہے کہ ہم وہ کام کریں جو آپؐ نے کیا ہے اور اس ارادہ و نیت کے ساتھ