کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 110
’’سُنّت دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے۔سُنّت الہدیٰ جس کو قائم کرنا تکمیل دین کے لیے ہوتا ہے اور اس کے بلاعذر تارک‘ جبکہ وہ اس کے ترک پر مصر بھی ہو‘ کو گمراہ قرار دیا جائے گا اور وہ قابل مذمت ہوگا۔جیسا کہ فرض نمازوں کے لیے اذان کی مثال ہے…اور سُنّت کی دوسری قسم سُنّت الزائدۃ ہے۔جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانا‘ بیٹھا اور لباس پہننا۔فقہاء کا کہنا یہ ہے کہ سنن الزوائدکو اختیار کرنا ’حسن‘ ہے اور ان کے چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے ‘یعنی ان کو چھوڑنا ناپسندیدہ یا برا نہیں ہے۔‘‘(۱۸) یہ وہی انداز ہے جو ہم نے عمامے کی بحث میں اختیار کیا ہے کہ اگر کوئی شخص ہم سے یہ سوال کرے کہ عمامہ باندھنا چاہیے یا نہیں ‘ تو ہم اسے یہی جواب دیں گے کہ باندھنا چاہیے ‘لیکن اس کا باندھنادین کا موضوع نہیں ہے کہ جس کے چھوڑنے کو ناپسندیدگی یا بری نظروں سے دیکھا جائے۔ڈاکٹر وہبہ الزحیلی لکھتے ہیں: ’’کیا مباح ’حسن‘ ہے یا نہیں‘تواس مسئلے میں راجح مسلک تفصیل ہے۔اور وہ یہ کہ مباح اس اعتبار سے تو ’حسن‘ ہے کہ اس کے فاعل کو اس کے کرنے کی اجازت ہے یا اس اعتبار سے بھی’حسن‘ ہو سکتا ہے کہ اس کی اپنے مقصود سے موافقت ہے۔لیکن مباح اس اعتبار سے بالکل بھی’حسن‘ نہیں ہے کہ اس کا فاعل قابل تعریف ہو۔‘‘(۱۹) ٭ آخری نکتہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض وہ جبلی افعال جو قرآن کی کسی ایسی نص کا بیان بن رہے ہوں جس کااصل حکم وجوب یا استحباب کے درجے میں ہو تو پھر یہ جبلی افعال کم از کم مستحب ضرور ہوں گے اور ان کی اتباع باعث اجر و ثواب ہو گی۔امام ابوبکر جصاصؒ(متوفی ۳۷۰ھ)لکھتے ہیں: ’’اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے افعال جو ہر شخص کو پیش آتے ہیں اور کوئی بھی عادتاً ان سے مستغنی نہیں ہو سکتا ہے ‘مثلاً کھانا ‘ پینا‘ کھڑاہونا‘ بیٹھنا اور سونا وغیرہ جیساکہ آپؐ کے بارے میں مروی ہے کہ جب آپؐ اپنے گھر میں ہوتے تو اپنا جوتا خودگانٹھ لیتے تھے اور اپنا کپڑا خود سِی لیتے تھے۔آپؐ کے ایسے افعا ل وجوب کے درجے کے نہیں ہیں۔کیونکہ ہم یہ بات پہلے بیان کر چکے ہیں کہ آپؐ ان افعال سے علیحدہ نہیں رہ سکتے تھے اور ان افعال کو کرنے کی حاجت ہر کسی کوپیش آتی ہے۔اور اس کے ساتھ یہ مسئلہ بھی ہے کہ ان افعال میں ہر کسی کے لیے آپؐ کی اقتداء ممکن بھی نہیں ہے کیونکہ ان افعال کا ہر حال میں کرنا محال ہے۔جوتے کو گانٹھ لینے اور کپڑے کو سی لینے کے عمل کے ظاہری فعل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپؐ نے ان افعال کو ہمارے حق میں واجب کرنے کا ارادہ نہیں فرمایا تھا۔یہ بھی امکان ہے کہ آپؐ سے اس قسم کے افعال تقرب الی اللہ کی نیت سے وارد ہوئے ہوں کیونکہ ان افعال کو کرتے وقت آپؐ نے تواضع‘ ترکِ تکبر‘ گھروالوں کے ساتھ مساوات کا ارادہ کیاتاکہ اس پر اللہ کی طرف سے اجر و ثواب ہو اور آپؐ کی امت بھی آپؐ کی اس مسئلے میں اقتداء کرے۔‘‘(۲۰) اس بحث کو آئندہ صفحات میں امام جصاصؒ کے حوالے سے بالتفصیل بیان کیاگیا ہے۔