کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 109
(مسألۃ الاتفاق فی أفعالہ الجبلیۃ)أی الصادرۃ بمقتضی طبیعتہ صلی اللّٰه علیہ وسلم فی أصل خلقتہ کالقیام و القعود و النوم و الأکل و الشرب(الإباحۃ لنا و لہ)(۱۵) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جبلی افعال جو کہ آپؐ سے بتقاضائے طبیعت صادر ہوئے ہیں ‘جیسا کہ کھڑاہونا‘ بیٹھنا‘ سونا‘ کھانا اور پینا وغیرہ‘ تو اس کے بارے میں علماء کااتفاق ہے کہ یہ تمام افعال آپؐ اور امت کے حق میں مباح ہیں۔‘‘ ٭ اس بحث میں پہلا نکتہ تو یہ ہے کہ مباح کی تعریف احناف کے نزدیک بالاتفاق یہ ہے کہ جس کے کرنے پر کوئی ثواب نہ ہو اور نہ ہی اس کے ترک پر عذاب ہو۔علامہ علاؤ الدین بخاریؒ فرماتے ہیں: ’’تیسری قسم مباح ہے جس کی ادائیگی میں نہ تو کوئی ثواب ہے اور نہ ہی اس کے چھوڑنے پر کوئی سزا ہے۔‘‘(۱۶) پس احناف کے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جبلی افعال کی مطلق پیروی پر کوئی ثواب نہیں ہے۔ ٭ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ امام جصاصؒ(متوفی ۳۷۰ھ)کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے افعال جو کہ امت کے حق میں ’مباح‘ ہیں ‘ان کے لیے لفظ’ سُنّت‘ بھی استعمال نہیں ہو سکتا ہے۔ قال أبو بکر:و أحکام السنۃ علی ثلاثۃ أنحاء:فض‘ و واجب‘ و ندب‘ و لیس یکاد یطلق علی المباح لفظ السنۃ‘ لأن قد بینا:أن معنی السنۃ:أن یفعل‘ أو یقول‘ لیقتدی بہ فیہ‘ و یداوم علیہ‘ و یستحق بہ الثواب‘ و ذلک معدوم فی قسم المباح(۱۷) ’’امام ابوبکر جصاصؒ فرماتے ہیں کہ:سُنّت کے احکام تین قسم پر ہیں۔فرض‘ واجب اور مندوب۔اور مباح فعل پر لفظ ’سُنّت‘ کا اطلاق درست نہیں ہے‘ کیونکہ ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ ’سُنّت‘ کامعنی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کام کریں یا کوئی حکم اس لیے دیں کہ اس میں آپؐ کی اقتداء کی جائے ‘اس پرعمل میں دوام اختیار کیا جائے اور اس پر عمل سے ثواب حاصل ہو ‘اور یہ تینوں باتیں مباح میں معدوم ہیں۔‘‘ ٭ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ بعض فقہائے احناف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جبلی امور کی پیروی کو ’حسن‘ کہا ہے تو اس سے ان کی یہ مراد نہیں ہے کہ وہ ان افعال کو ’مباح‘ بھی کہتے ہیں اور باعث اجر و ثواب بھی سمجھتے ہیں۔ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ فقہائے احناف کے نزدیک واجب اور مندوب کی طرح مباح بھی ’حسن‘ کی ایک قسم ہے۔اور’حسن‘ سے مراد بعض اوقات ایسے افعال بھی ہوتے ہیں جو کسی اخروی اجر و ثواب کے وعدے کے بغیر بھی کسی اور پہلو سے’حسن‘ ہوتے ہیں۔علامہ ابن الھمام ؒ اورابن امیر الحاج الحنفیؒ لکھتے ہیں: