کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 108
سے ہوں یابے ہوشی و نیند کی حالت میں آپؐ سے صادر ہو ئے ہوں تو ان میں آپؐ کی اقتداء درست نہیں ہے…’زلۃ‘ میں عین فعل کا ارادہ نہیں ہوتا لیکن اصل فعل کا قصد ضرور ہوتا ہے… ابوالحسن الاشعری رحمۃ اللہ علیہ نے عصمت انبیاء کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ ’زلۃ‘ کا معنی یہ نہیں ہے کہ وہ حق سے باطل اور اطاعت سے معصیت کی طرف پھسل گئے‘بلکہ اس کا اصل معنی یہ ہے کہ وہ افضل سے مفضول اور زیادہ صحیح سے صحیح کی طرف مائل ہو گئے۔‘‘(۱۱) ٭ علامہ علاؤ الدین بخاریؒ(متوفی ۷۳۰ھ)کی اس مذکورہ بالا عبارت میں ایک قابل غور اہم نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے مباح کو ’قبیح ‘ کے بالمقابل’حسن‘ کی ایک قسم قرار دیا ہے۔پس’مباح‘اگرچہ ’حسن‘ ہوتاہے لیکن اس پر کوئی اجر و ثواب نہیں ہوتا۔علامہ صاحب اپنی کتاب میں مباح کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: و أما الثالث فھو المباح إذ لیس فی أدائہ ثواب‘ و لا فی ترکہ عقاب(۱۲) ’’تیسری قسم مباح ہے جس کی ادائیگی میں نہ تو کوئی ثواب ہے اور نہ ہی اس کے چھوڑنے پر کوئی سزا ہے۔‘‘ ٭ مذکورہ بالا بحث سے ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’مباح ‘ پر اگر اجر و ثواب نہیں ہے تو اس کو ’حسن‘ کس پہلو سے کہا گیا ہے؟بعض اصولیین نے ’مباح‘ کے ’حسن‘ ہونے کی بحث کو مستقل طور پر بیان کیا ہے اور اس میں اس نکتے کی بھی وضاحت کی ہے۔امام غزالی ؒ(متوفی۵۰۵ھ)لکھتے ہیں: ’’اگر یہ کہا جائے کہ کیا مباح ’حسن‘ ہے؟تو ہم کہیں گے کہ اگر تو ’حسن‘ سے مراد یہ ہے کہ فاعل کو اس کو کرنے کی اجازت ہے تو اس اعتبار سے مباح’حسن‘ ہے۔اور اگر’حسن‘ سے مراد یہ ہے کہ اس کے فاعل کی تعظیم کی جائے اور اس کا فاعل قابل تعریف ہو اوراسی طرح ’قبیح‘ سے مرا د یہ ہے کہ اس کے فاعل کی مذمت یا سزا کا اعتقاد ہو توا س معنی میں مباح’حسن‘ نہیں ہے۔‘‘(۱۳) دوسری قسم:اس قسم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال شامل ہیں جو جبلی امور سے متعلق ہیں۔فقہائے احناف کے نزدیک یہ افعال بالاتفاق مباح ہیں۔علامہ علاؤ الدین بخاریؒلکھتے ہیں: ’’علماء نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ان تمام افعال کی شرعی حیثیت کے بارے میں اختلاف کیا ہے جو بھول چوک یا سہوکے علاوہ ہیں - مثلاً آپؐ کا ظہر کی دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دینا یہاں تک کہ ذو الیدین نے کہا:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!کیا نماز کم ہوگئی ہے یا آپؐ بھول گئے ہیں؟- اور ایسے طبعی افعال کے علاوہ ہیں جن سے کوئی بھی ذی روح مخلوق خالی نہیں ہوتی۔مثلاً سانس لینا‘ کھڑا ہونا‘ بیٹھنا‘ کھانا‘ پینا وغیرہ۔یہ تمام افعال آپؐ اور اُمت کے حق میں مباح ہیں اور ان کے مباح ہونے میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔‘‘(۱۴) علامہ ابن الھمامؒ(متوفی ۸۶۱ھ)اورابن امیر حاج الحنفی(ؒمتوفی ۸۷۱ھ)لکھتے ہیں: