کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 107
قصد کیا ہو اور اس مباح فعل کے ارتکاب نے فاعل کو ’زلۃ‘ تک پہنچا دیا ہو۔‘‘ پس وہ شخص ایک مقصود بعینہٖ حرام فعل(یعنی ایسا حرام فعل کہ اس کے ارتکاب کا قصد کیا گیا ہو)میں مشغول ہونے کی وجہ سے پھسل گیا۔‘‘(۹)
شمس الائمہ امام سرخسیؒ(متوفی ۴۸۳ھ)فرماتے ہیں:
’’جان لو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال جو کہ قصد و ارادے سے ہوں ‘ان کی چار اقسام ہیں:مباح‘ مستحب‘ واجب اور فرض۔ایک پانچویں قسم’زلۃ‘ کی بھی ہے لیکن وہ اس باب(یعنی اتباع کے باب)میں داخل نہیں ہے ‘کیونکہ ’زلۃ‘ میں آپؐ کی اقتداء جائز نہیں ہے۔اس باب میں ان افعال کے حکم کو بیان کیا جائے گا جن میں آپؐ کی اقتداء ہو گی۔اسی لیے نیند یا بے ہوشی کے عالم میں آپؐ سے صادر ہونے والے افعال کا تذکرہ اس جگہ نہیں ہو گا ‘کیونکہ ان حالتوں میں آپؐ سے صادر ہونے والے افعال میں آپؐ کا قصد وا رادہ شامل نہیں ہوتا ہے ‘لہٰذا ان حالتوں میں آپؐ سے صادر ہونے والے افعال حکم شرعی میں داخل نہ ہوں گے۔جہاں تک’زلۃ‘ کا معاملہ ہے تو اس میں عین فعل کا قصد نہیں ہوتا لیکن اصل فعل کی طرف قصد موجود ہوتا ہے۔‘‘(۱۰)
علامہ علاؤ الدین بخاری ؒ(متوفی ۷۳۰ھ)لکھتے ہیں:
’’بنیادی طور پرافعال کی دو ہی قسمیں ہیں۔ایک قسم تو ان افعال کی ہے جن کا صرف وجود ہواور کوئی زائد صفت(مثلاً ارادہ وغیرہ)ان کے ساتھ متصل نہ ہو۔جیساکہ کسی سوتے ہوئے یا بھولے ہوئے آدمی کا فعل ہے۔یہ افعال نہ تو حسن ہوں گے اورنہ ہی قبیح ہوسکتے ہیں۔دوسری قسم میں وہ افعال شامل ہیں جن کے وجود کے ساتھ کوئی زائد صفت(مثلاً ارادہ وغیرہ)بھی شامل ہو‘ جیسا کہ مکلفین کے افعال ہیں۔ان افعال کی دو قسمیں ہیں۔ایک قسم ’حسن‘ کہلاتی ہے اور دوسری ’قبیح‘۔’حسن‘ کی آگے مزید تین قسمیں ہیں‘ یعنی واجب‘ مندوب اور مباح۔اور ’قبیح‘ کی دوقسمیں ہیں‘ یعنی حرام و مکروہ۔اور ان تمام افعال کا صدور سوائے آخری قسم(یعنی قبیح)کے تمام مکلفین سے ممکن ہے‘ چاہے وہ انبیاء ؑہوں یا عام انسان۔جہاں تک آخری قسم(یعنی قبیح)کا تعلق ہے تو انبیاء کے سوا تمام لوگوں سے اس کا وقوع ممکن ہے جبکہ انبیاء ؑسے ان افعال کا صدور ممکن نہیں ہے جو کہ معصیت ہوں‘ کیونکہ عام مسلمانوں کا عقیدہ یہی ہے کہ انبیاء کبیرہ گناہوں کے ارتکاب سے معصوم ہوتے ہیں۔ہمارے اصحاب(یعنی حنفیہ)کا عقیدہ یہ ہے کہ انبیاء صغائر سے بھی پاک ہوتے ہیں اگرچہ وہ ’زلۃ‘ کا ارتکاب کر سکتے ہیں ‘جبکہ بعض اشعریہ کا عقیدہ اس کے برعکس ہے(یعنی ان کے نزدیک انبیاء ’زلۃ‘ کے علاوہ صغائر کے بھی مرتکب ہو سکتے ہیں)۔پس یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اس باب میں افعال سے مرادآپؐ کے وہ افعال ہیں جو قصد وارادے سے واقع ہوں اور ’زلۃ‘ کی قبیل سے نہ ہوں‘کیونکہ اس باب میں آپؐ کی اتباع کا مسئلہ زیر بحث ہے اور آپؐ کے جو افعال بھول چوک میں