کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 106
دینی تحریکوں اور علماء کو اپنے سر کو ڈھانپ کر رکھنا چاہیے۔چاہے عمامہ باندھیں یاٹوپی استعمال کریں۔ سوال:آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ عمامہ باندھنا دین کامسئلہ نہیں ہے اور پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ مذہبی لوگوں کو عمامہ باندھنا چاہیے۔یہ تضاد بیانی نہیں ہے؟ جواب:یہ بالکل بھی تضاد نہیں ہے۔جب ہم یہ کہتے ہیں کہ دینی تحریکوں کے کارکنان کو اپنا سر ڈھانپ کر رکھنا چاہیے تو وہ اس وجہ سے ہے کہ ہمارے مسلمان معاشروں کا یہ عرف و رواج ہے کہ علماء اپنے سر کو ڈھانپ کر رکھتے ہیں۔اس کو ایک سادہ سی مثال سے سمجھیں کہ اگر ہم کسی شخص سے یہ سوال کریں کہ کپڑے استری کر کے پہننے چاہئیں یا بغیر استری کے؟تواس کا جواب ہوگا کہ استری کر کے پہننے چاہئیں۔لیکن اگر اسی شخص سے یہ بھی سوال کیا جائے کہ کیا استری شدہ کپڑے پہننا ایک دینی مسئلہ ‘ یعنی باعث اجر و ثواب ہے؟تو اس کا جواب نفی میں ہو گا۔لہٰذا کسی کام کے کرنے کا مطلب یہ بالکل بھی نہیں ہے کہ ہم اسے صرف اسی صورت کرتے ہیں جبکہ وہ ہمار ے دین ہی کا مطالبہ ہو۔یہ مسئلہ اصولی طور پرعرف کی بحث کا ہے۔ سوال:متقدمین حنفی فقہاء نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کی جو قسمیں بیان کی ہیں ان پر ذراتفصیل سے روشنی ڈالیں۔ جواب:احناف ؒ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کی چھ قسمیں بنائی ہیں: پہلی قسم:فقہائے احناف کے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کی ایک قسم وہ ہے جو کہ ’غیر ارادی افعال‘ پر مشتمل ہے۔غیر ارادی افعال کئی قسم کے ہوتے ہیں جن میں ایک کو فقہائے احناف نے ’زلۃ‘ یعنی بھول چوک کانام دیا ہے۔’زلۃ‘کے علاوہ غیر ارادی افعال کی ایک دوسری قسم کے طور پر فقہائے احناف نے آپؐ کے ان افعال کو بھی بیان کیا ہے جو آپؐ سے نیند یا بے ہوشی کی حالت میں سرزد ہوئے ہوں۔فقہائے احناف کے نزدیک اس قسم کے افعال میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کسی بھی امتی کے لیے جائز نہیں ہے۔فخر الاسلام امام بزدویؒ(متوفی ۴۸۳ھ)لکھتے ہیں: ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کی اقسام میں مباح‘ مستحب‘ واجب اور فرض شامل ہیں۔آپؐ کے افعال کی ایک اور قسم’زلۃ‘ بھی ہے۔’زلۃ‘کا تعلق اس باب(یعنی اتباع)سے نہیں ہے ‘کیونکہ ’زلۃ‘ میں کسی بھی نبی و رسول کی اقتداء و پیروی درست نہیں ہے۔(قرآن و سُنّت میں)اس قسم کے افعال کے تذکرہ کے ساتھ ہی خود فاعل یا اللہ کی طرف سے ایک بیان متصل بعد ہوتا ہے(جو کہ اس کے قابل اقتداء نہ ہونے کی طرف اشارہ کر رہاہوتا ہے)۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور حضرت آدم ؑنے نافرمانی کی۔‘‘ایک اور جگہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے ایک قبطی کے قتل ہونے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’حضرت موسٰی ؑ نے کہا یہ تو شیطان کاکام ہے۔‘‘’زلۃ‘ سے مراد وہ فعل ہے جس کے کرنے کا فاعل نے ارادہ نہ کیا ہو لیکن فاعل نے ایک دوسرے مباح فعل کا