کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 105
’’یہ بات معلوم شدہ ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کام کومباح یا مستحب سمجھ کر کیاہے اور ہم اسے واجب سمجھ کر کریں تو آپؐ کے متبع شمار نہ ہوں گے‘ کیونکہ اتباع کی یہ لازمی شرط ہے کہ کسی کام کو اسی نیت و ارادے سے کیا جائے جس نیت و ارادے سے آپؐ نے اس کام کو کیا ہے۔اور اگر(کسی سُنّت پر عمل کرتے ہوئے)ہم نیت و ارادے میں آپؐ کی مخالفت کریں گے تو ہم اتباع کی تعریف سے نکل جائیں گے۔کیا آپ غور نہیں کرتے کہ ایک شخص ایک کام کرتاہے اور ایک دوسرا شخص بظاہرویسا ہی کام کرتا ہے لیکن اس کا مقصود پہلے شخص کی مخالفت اور اس سے علیحدگی ہے ‘تو بظاہر دونوں کے کام میں کتنی ہی مشابہت کیوں نہ ہو دوسرا شخص پہلے کا متبع نہ ہوگا۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ فقہائے احناف کے ہاں اگر کوئی شخص کسی ایسے فعل کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں مباح ہو‘ مستحب سمجھ کر اس پر عمل پیراہو تو وہ امتی آپؐ کا متبع نہیں ہے۔پس ہم بھی یہی بات کرتے ہیں کہ آپؐ کے جو اقوال و افعال باتفاقِ اُمت مباح درجے کے ہیں ان کو مستحب یا مندوب نہ بنا لیا جائے۔ سوال:مباح و مندوب میں اہل سُنّت کے نزدیک کیا فرق ہے؟حنفی فقہاء کے حوالے سے بیان کریں! جواب:اہل سُنّت کے نزدیک مباح سے مراد وہ امور ہیں جن کا کرنا اور نہ کرنا برابر ہو اوران کے کرنے اور نہ کرنے میں کوئی اجرو ثواب نہ ہو۔جبکہ مندوب سے مراد وہ افعال ہیں جن کے کرنے پر اجر و ثواب کا وعدہ ہولیکن ان کا کرنا لازم نہ ہو۔علامہ علاؤ الدین بخاری ؒ(متوفی ۷۳۰ھ)فرماتے ہیں: ’’ہمارے فقہاء کی بعض اصول کی کتابوں میں اس بات کا تذکرہ موجود ہے کہ مکلف سے صادر ہونے والے فعل میں دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔یا تو اس فعل کی ادائیگی کا پہلو راجح ہو گا یا ترک کا ‘یا ان دونوں میں سے کوئی بھی نہ ہوگا۔پہلی قسم میں(جبکہ کسی مکلف کے فعل کی ادائیگی کا پہلو راجح ہو)ایک صورت تو یہ بنے گی کہ اس کے منکر کی تکفیر کی جائے اور اس کو گمراہ ٹھہرایا جائے اور یہ فرض ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے منکر کی تکفیر نہ ہو لیکن اس کو چھوڑنے پر عذاب کی وعید ہو تویہ واجب ہے۔تیسری صورت یہ ہے کہ اس کے چھوڑنے پر سزا بھی نہ ہو۔اور اس کی پھر دو صورتیں ہیں۔یا تو آپؐ نے اس پر مواظبت اختیار کی ہو تو یہ سُنّت مشہورہ ہے اور اگر آپؐ نے اس پر مواظبت اختیار نہیں کی تویہ نفل یا مندوب یا تطوع ہے۔دوسری قسم(جس میں مکلف کے فعل میں ترک کا پہلو راجح ہو)میں پہلی صورت تو یہ ہے کہ اس کے کرنے میں عذاب ہو اور یہ حرام ہے۔اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے کرنے پر عذاب نہ ہو اور یہ مکروہ ہے۔تیسری قسم مباح ہے جس کی ادائیگی میں نہ تو کوئی ثواب ہے اور نہ ہی اس کے چھوڑنے پرکوئی عذاب ہے۔‘‘(۸) سوال:آپ کی باتوں سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں عمامہ وغیرہ نہیں باندھنا چاہیے۔کیا یہ درست ہے؟ جواب:میں نے یہ کب کہا ہے کہ ہمیں عمامہ نہیں باندھنا چاہیے؟میں نے تو یہ کہا ہے کہ عمامہ باندھنے کو دین کامسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔علاوہ ازیں ہم نے پہلے بھی یہ لکھا تھا اور اب بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ مذہبی حلقوں ‘