کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 104
پر سواری ایک دینی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق آپؐ کی بشری زندگی سے ہے۔چنانچہ گدھے پر سواری ایک جائز امر ہے‘ لیکن اس فعل میں امت سے آپؐ کی اتباع کا مطالبہ نہیں ہے۔اس واقعے کا اگر ہم تجزیہ کریں تو درج ذیل ممکنہ موقف ہمارے سامنے آتے ہیں:
(۱) گدھے کی سواری ایک مباح و جائز امر ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھے کی سواری ثواب کی نیت سے نہیں کی ‘لہٰذا ایک مسلمان کو بھی جب گدھے کی سواری کی ضرورت پیش آئے تو وہ بھی اسی نیت کے ساتھ اس کی سواری کرے جس نیت کے ساتھ آپؐ نے اس کی سواری کی تھی۔یعنی آپؐ نے اگر ایک کام کو مباح(بغیر اجر و ثواب کی نیت کے)سمجھ کر کیا تو آپؐ کی ا تباع یہی ہے کہ اُمت بھی اس کو مباح سمجھ کر کرے۔اگر آپؐ نے ایک کام مباح سمجھ کر کیا اور کوئی امتی اس کام کو مستحب(باعث اجر و ثواب)سمجھ کرکرے تو ایسا امتی آپؐ کا متبع نہیں ہے۔یہ موقف علمائے اہل سُنّت کا ہے۔
(۲) گدھے کی سواری ایک سُنّت ِشرعیہ ہے۔پس گدھے پر سوار ہونا باعث عبادت و اجر و ثواب ہے اور آپؐ کی اس اتباع میں شامل ہے جس کا حکم ہمیں﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ﴾میں دیا گیا ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور امام ابن تیمیہؒ کے نزدیک یہ موقف ایک بدعتی موقف ہے۔
میں پھر یہ کہوں گا کہ میں یہ نہیں کہتا بلکہ حضرت عمرؓ اور امام ابن تیمیہؒ نے اس موقف کو بدعت کہا ہے اور ان ہی بزرگوں کے حوالے ہم نے اپنے اصل مضمون میں نقل کیے تھے۔میں تو دین کا ایک ادنی سا طالب علم ہوں۔میری کیامجال کہ اتنی بڑی بات کہوں!اگر کسی شخص کو اعتراض ہو تو وہ ان دلائل کا جواب دے جو کہ حضرت عمرؓ اور امام ابن تیمیہؒ نے اس مسئلے میں بیان کیے ہیں۔
سوال:ہمارے ہاں حنفی فقہ کے پیروکاروں کی اکثریت ہے۔اگر آپ اس مسئلے کی وضاحت میں کچھ حنفی فقہاء کے اقوال پیش کر دیں تو شاید ہمیں اطمینان ہو جائے۔
جواب:متقدمین حنفی فقہاء نے اس مسئلے پر مفصل بحث کی ہے جو ان کی اصول کی کتابوں میں موجود ہے۔امام ابوبکر جصاص الحنفیؒ(متوفی ۳۷۰ھ)لکھتے ہیں:
فمعلوم أنہ ان کان فعلہ علی وجہ الاباحۃ والندب ثم فعلناہ نحن علی وجہ الوجوب لم نکن متبعین لہ لأن شرط الاتباع ایقاعہ علی الوجہ الذی أوقعہ علیہ و متی خالفناہ فی ھذا الوجہ خرجنا من حد الاتباع. ألا تری أن من فعل فعلا ففعل غیرہ مثلہ علی وجہ المعارضۃ لہ و المضاھاۃ لفعلہ قاصدا المعارضۃ و مباراتہ لم یکن متبعا لہ و ان کان قد أوقع فعلا مثل فعلہ فی الظاھر(۷)