کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 103
سے وارد ہوئے ہیں ‘اور کوئی ایسے صریح قرائن یا دلائل بھی موجود نہ ہوں جو ان اقوال یا افعال کے شرعی ہونے میں نص قطعی یا ظن غالب کا درجہ رکھتے ہوں۔ سوال:بعض لوگ آپ کے بارے میں یہ بات مشہور کر رہے ہیں کہ آپ نے اپنے سابقہ مضمون میں یہ لکھا ہے کہ عمامہ پہننا بدعت ہے۔کیا یہ درست ہے؟ جواب:ہم ایسا بہتان لگانے والوں سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ہمارا نقطۂ نظر تویہ ہے کہ جو عمامہ پہننے کو بدعت کہے وہ خود بدعتی ہے۔صحیح احادیث میں یہ ذکر موجود ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامہ پہنا تو آپؐ معاذ اللہ!کوئی بدعت کیسے کر سکتے ہیں؟در حقیقت ہمارے بعض ناراض دوستوں نے جب ہمارا موقف اپنی عینک سے دیکھنا شروع کیا تو انہوں نے ایسی چیزیں کھینچ تان کر ہمارے مضمون سے نکالنے کی کوشش کی جو ہمارا مقصود نہ تھیں۔آپ ہماری بات کو غور سے سمجھیں۔ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامہ باندھا ‘کیونکہ عمامہ آپؐ کے زمانے کا ایک معروف و مروّج لباس تھا‘ لیکن آپؐ نے عمامہ تقرب الی اللہ یا عبادت یا ثواب کی نیت سے نہیں باندھا۔لہٰذا عمامہ باندھنے کا تعلق آپؐ کی بشری زندگی سے ہے۔پس عمامہ باندھنا ایک مباح امر ہے۔اگر کوئی شخص عمامہ باندھنا چاہتا ہے تو ضرور باندھے۔ہمیں اس پر کیا اعتراض ہو سکتاہے!لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ آپؐ نے عمامہ تقرب الی اللہ یا عبادت کی نیت سے باندھا تھا تو ہمیں اس سے اختلاف ہے۔خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہمارے نزدیک عمامہ باندھنا اور نہ باندھنا برابر ہے۔نہ عمامہ باندھنے پر کوئی اجر و ثواب ہے اور نہ ہی عمامہ نہ باندھنے پر۔عمامہ باندھنا اور نہ باندھناایک مباح امر ہے اور مباح کی تعریف علمائے اہل سُنّت کے ہاں یہی ہے کہ جس کے کرنے یا نہ کرنے پر کوئی اجر و ثواب نہ ہو۔عمامے کی مثال ایسے ہی ہے جیسا کہ آپؐ نے تہبند باندھا۔لہٰذا تہبند باندھنا اور نہ باندھنا اور عمامہ باندھنا یا نہ باندھنا یہ کوئی دین کا موضوع نہیں ہے ‘بلکہ اس کا تعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشری زندگی سے ہے جس میں آپؐ کی اتباع کا امت سے کوئی تقاضا نہیں ہے۔ سوال:آپ نے اپنے مضمون میں اہل بدعت کا لفظ استعمال کیا تھا تو اس سے آپ کی کیا مراد تھی؟آپ اپنی مندرجہ بالا بات کو ذرا مزیدو اضح کریں۔ جواب:یہ ایک انتہائی باریک نکتہ ہے جو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اور امام ابن تیمیہ ؒ نے بیان کیا ہے۔اس کو ایک مثال سے سمجھیں۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھے کی سواری کی۔ظاہری بات ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام اتفاقاً یا ضرورتاً کیا تھا۔کوئی بھی صاحب ِعقل یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تقرب الی اللہ یا عبادت یا ثواب کی نیت سے گدھے پر سوار ہوئے۔یعنی ایسا معاملہ نہیں تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ وحی ہوئی ہو کہ گدھے کی سواری اللہ کے ہاں باعث اجر و ثواب ہے لہٰذا آپؐ نے اجر و ثواب کی نیت سے گدھے کی سواری کی ہو‘بلکہ آپؐ کو سواری کی ضرورت تھی ‘لہٰذاجو سواری میسر آئی آپؐ اس پر سوار ہو گئے۔پس گدھے