کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 102
آج تک مختلف علماء و مفسرین نے قرآن کی آیاتِ احکام سے شرعی احکام کی جو فہرستیں مرتب کی ہیں ان کی تعداد میں بھی اختلاف ہے ‘کیونکہ منہجِ استنباطِ احکام‘ اصولِ فقہ‘ طریقۂ استدلال اور فہم و فراست کا فرق ہوتا ہے۔ایک فقیہہ کو بظاہر ایک آیت سے کوئی حکم اخذ ہوتا نظر نہیں آتا لیکن دوسرا فقیہہ اسی آیت سے دس قسم کے احکام مستنبط کر لیتا ہے۔پس احادیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن کی فہرست مرتب کرنے میں بھی اس قسم کا اختلاف ہو سکتا ہے۔لہٰذا سنن کے مصادرمحدثین نے کتب احادیث کی صورت میں مرتب کر دیے ہیں جن سے علماء قیامت تک انسانی زندگی کے جمیع گوشوں کے لیے رہنمائی فراہم کرتے رہیں گے۔ سوال:علماء تو اپنے اصول و ضوابط کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی و بشری زندگی میں فرق کر لیں گے لیکن ایک عامی کو کیسے معلوم ہو گا کہ یہ شرعی سُنّت ہے یا بشری زندگی ہے؟ جواب:ہم یہ بات پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل زندگی شرعی زندگی ہے اور آپؐ کی یہ زندگی آپؐ کی بشری زندگی پر حاوی ہے۔اصل الاصول یہی ہے کہ آپؐ کے ہر قول ‘ فعل یا تقریر کو شرعی زندگی سے متعلق ہی سمجھا جائے اِلاّ یہ کہ کسی قول یا فعل کے بارے میں کوئی قرینہ یا دلیل پائی جائے کہ اس قول یا فعل کا تعلق بشری زندگی سے ہے۔پس آپؐ کے اکثر و بیشتر اقوال و افعال شرعی زندگی سے متعلق ہیں جن کی اتباع مطلوب ہے۔ہاں بعض اقوال و افعال ایسے ہیں جو بشری زندگی میں داخل ہیں لیکن یہ بشری زندگی ‘ آپؐ کی شرعی زندگی کے بالمقابل نسبتاً کم ہے۔پس ایک عامی جب آپؐ کے کسی قول ‘ فعل یا تقریر کی پیروی کرتا ہے تو آپؐ کی شرعی زندگی ہی کی پیروی کر رہا ہوتا ہے اور آپؐ کے جن اقوال و افعال کا تعلق بشری زندگی سے ہو تو عموماً معاشرے میں علماء کی ان کے بارے میں بحث جاری رہتی ہے اور ایک عامی بھی اگر دین سے تھوڑا بہت تعلق رکھتا ہو تو اسے عموماً معلوم ہوتا ہی ہے کہ اس مسئلے میں علماء کی یہ رائے ہے یا فلاں اختلاف ہے۔جیسا کہ پاکستان میں نماز کی حالت میں پہلی و تیسری رکعت میں جلسۂ استراحت کے بارے میں حنفی علماء کا کہنا یہ ہے کہ یہ بشری زندگی سے متعلق تھا ‘یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑھاپے کی وجہ سے جلسۂ استراحت کیاہے جبکہ اہل حدیث علماء اسے سُنّت ِشرعیہ مانتے ہیں۔اسی طرح اکثر سلفی علماء کے ہاں عمامہ باندھنا سُنّت نہیں ہے جبکہ حنفی علماء اس کو سُنّت قرار دیتے ہیں۔لہٰذا جو شخص سُنّت کی اتباع کرنا چاہتا ہے تو و ہ آپؐ کے اکثرو بیشتر اقوال و افعال کی پیروی کرے گا او رآپؐ کے ان اقوال و افعال کے بارے میں بھی علماء کے اختلاف سے کسی قدر واقف ہو گاجن میں بشری یا شرعی زندگی کا تنازع سلف صالحین ہی سے نقل ہوتا چلا آرہا ہے۔ پس ایک عامی کو ہم یہ نصیحت ضرور کریں گے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے اقوال و افعال کی پیروی و اتباع پر زور نہ دے جن کے بارے میں اُمت کا اتفاق ہے کہ ان میں آپؐ کی اتباع مطلوب نہیں ہے یا ان کے بارے میں امت کا اختلاف ہے کہ وہ اقوال و افعال بشری معاملات سے متعلق ہیں یا شرعی حیثیت