کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 101
دیاہے۔فقہائے اہل سُنّت نے کچھ ایسے اصول بیان کر دیے ہیں جن کی روشنی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی و بشری زندگی سے متعلق اقوال و افعال میں فرق کیا جا سکتا ہے۔مثال کے طور پر ایک اصول یہ ہے کہ اتفاقی امور کا تعلق آپؐ کی بشری زندگی سے ہوتا ہے۔جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گدھے کی سواری کرنا یا اونٹ پر طواف کرنا ایک اتفاقی امر تھا۔
سوال:کیا فقہاء نے کوئی ایسی فہرست مرتب کی ہے جس سے یہ معلوم ہو جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فلاں سنن آپؐ کی بشری زندگی سے متعلق ہیں اور فلاں کا تعلق شریعت سے ہے؟
جواب:فقہاء یا علماء نے اس قسم کی کوئی فہرست مرتب نہیں کی ہے۔ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کوئی ایسی فہرست بھی آج تک فقہاء یا علماء نے مرتب نہیں کی ہے جس میں تمام سنن کا احاطہ کر لیا گیا ہو‘بلکہ علماء اور محدثین نے ایسی کتب احادیث کو مرتب و مدوّن کیا ہے جن میں ان سنن کا بیان تھا۔
اس فہرست کو مرتب نہ کرنے میں کیا حکمت کارفرما ہے‘ اب ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اقوال و افعال کے بارے میں تو فقہاء کا اجماع ہے کہ ان کا تعلق آپؐ کی شرعی زندگی سے ہے‘جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دن میں پانچ نمازیں پڑھنا۔اور آپؐ کے بعض اقوال و افعال کے بارے میں فقہاء کا اتفاق یہ ہے کہ ان کا تعلق آپؐ کی بشری زندگی سے ہے‘ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اونٹ پر طواف کرنا۔طواف کرنا تو ایک شرعی حکم ہے لیکن اونٹ پر سوار ہو کر طواف کرنا ایک بشری تقاضے کے تحت تھا۔لہٰذا افضل یہی ہے کہ پیدل طواف کیا جائے چاہے اونٹ پر طواف کی سہولت موجود بھی کیوں نہ ہو۔امام نووی ؒ نے شرح مسلم میں اس بات پر اُمت کا اجماع نقل کیا ہے کہ پیدل طواف افضل ہے۔یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اونٹ پر طواف کرنا ایک شرعی سُنّت نہ تھا بلکہ ایک بشری تقاضا تھا جس میں آپؐ کی اتباع کا مطالبہ اُمت سے نہیں ہے۔اور اسی بات کو حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے بھی ایک روایت میں واضح کیاہے جوصحیح مسلم میں موجود ہے۔جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اقوال و افعال ایسے ہیں جن کے بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف ہو جاتا ہے کہ ان کا تعلق بشری زندگی سے ہے یا شرعی زندگی سے۔جیسا کہ آپؐ کے لباس مثلاً عمامے کے بارے میں برصغیر پاک و ہند کے حنفی علماء کاموقف یہ ہے کہ عمامہ پہنناآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی زندگی سے متعلق تھا لہٰذا عمامہ باندھنا ایک شرعی سُنّت ہے‘ جبکہ سعودی عرب اور بعض دوسرے عرب ممالک کے حنبلی‘ شافعی ‘ مالکی اور سلفی علماء کی اکثریت کا کہنا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمامہ باندھنا عرب کے رسوم و رواج کے مطابق تھا اور یہ کوئی شرعی حکم نہیں ہے ‘لہٰذا یہ سُنّت ِشرعیہ بھی نہیں ہے۔ہمارا موقف بھی یہی ہے ‘جس پر ہم اِن شاء اللہ ایک علیحدہ مضمون میں بالتفصیل گفتگو کریں گے۔علماء کا یہ اختلاف دلائل و قرائن کی بنیاد پر ہوتا ہے اور جس طرف قوی استدلال موجود ہو گا وہ موقف راجح ہو گا۔پس اس مسئلے میں علماء کا یہ اختلاف ایک ایسا امر ہے جو سنن کی اس قسم کی فہرستیں مرتب کرنے میں مانع ہے۔