کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 100
شخص اتباع سُنّت کے جذبے میں غلو کرتے ہوئے آپؐ کے زمانے میں یہ حرکت کر گزرتا کہ آپؐ کے حجر ے کے باہر کھڑے ہو کر آپ ؐکی وہ باتیں سُنّتا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خلوت میں اپنی ازواج سے فرمایا کرتے تھے تا کہ وہ شخص بھی خلوت میں اپنی بیوی سے وہی باتیں کرے اور سُنّت کا اجر پائے ‘تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘ صحابہ ؓ یا آج کے ایک غیرت مند مسلمان کی اس ’’متبع سُنّت‘‘ شخص کے بار ے میں کیا رائے ہو گی؟اس کو ایک اور مثال سے یوں سمجھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لیا تو اب ایک نوجوان رمضان کے مہینے میں روزانہ اپنی بیوی کا پچاس دفعہ بوسہ اس لیے لے کہ ہر بوسے پر سُنّت کا اجر و ثواب ملے گا تو آپ کی اس شخص کے بارے میں کیارائے ہو گی‘ جبکہ اس کا اپنی بیوی کے ساتھ ملوث ہونے کا قوی اندیشہ بھی موجود ہو؟اس ضمن میں ایک اور مثال یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت کے تحت گدھے کی سواری کی ‘ اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ایک جائز امر ہے۔اب ایک مدرسہ یا دار العلوم والے ایک گدھا خرید کر اپنے پاس رکھ لیں اورروزانہ صبح تمام کلاسز کے طالب علم اور اساتذہ اس گدھے پر باری باری سوار ہوں اور اس عمل کو باعث اجر و ثواب سمجھتے ہوئے اس پر پابندی کریں تو ان ’’متبعین سُنّت‘‘ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہو گی؟اس کو ایک مزید مثال سے سمجھیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی وجہ سے یا بغیر کسی عذر کے اپنی نواسی امامہ بنت زینب کو گود میں اٹھا کر جماعت کروائی۔اب کسی مسجد میں تمام نمازی اور امام صاحب اپنے شیر خوار بچوں کو روزانہ مسجد میں لے آئیں اور گود میں اٹھا کر نماز پڑھیں تو آپ کی ان نمازیوں کے بارے میں کیا رائے ہو گی؟اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خلوت میں اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن سے پیار و محبت کی باتیں کرنا‘ روزے کی حالت میں بوسہ دینا‘اتفاقاً گدھے کی سواری کرنا‘ نماز کی حالت میں اپنی نواسی کو کندھوں پر بٹھانا‘ یہ سب کام اس امر کی طرف متوجہ کرنے کے لیے تھے کہ یہ جا ئز و مباح امور ہیں۔اگر تو یہ کہاجائے کہ آپؐ نے یہ کام اس لیے کیے تا کہ اُمت کو معلوم ہو کہ یہ جائز امور ہیں اور اس اعتبار سے یہ دین کاموضوع ہیں توہمیں اس نقطہ نظر سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔لیکن اِس مضمون میں ہمارا موضوعِ بحث ’اتباع سُنّت‘ تھا۔جب سُنّت کی اتباع کی بحث کی جاتی ہے تو آپؐ کے بہت سے ایسے اقوال و اعمال بھی ہوتے ہیں جن میں اللہ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا مطالبہ اُمت سے نہیں ہوا ہوتا ‘اسی کو اہل سُنّت آپؐ کی بشری زندگی کا نام دیتے ہیں۔یعنی ایک آپؐ کی شرعی زندگی ہے اور ایک بشری زندگی ہے۔آپؐ کی شرعی زندگی کا ہر ہر قول‘ فعل اور تقریر شریعت و قابل اتباع ہے جبکہ آپؐ کی بشری زندگی کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔اس میں اُمت سے آپ ؐکی اتباع کا مطالبہ نہیں ہے۔ سوال:یہ کیسے معلوم ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فلاں قول یا فعل آپؐ کی بشری زندگی سے متعلق ہے یا شرعی زندگی سے؟ جواب:یہ بہت ہی اہم سوال ہے اور اسی سوال کا جواب ہم نے اس مضمون کی پچھلی دو اقساط میں تفصیلاً