کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 99
(۱)اصول ، قاعدہ اور قانون ہے کہ احیاء و زندہ سنتے ہیں ، مگر چند صورتیں اس اصول، قاعدہ اور قانون سے مستثنیٰ ہیں مثلاً بہرے ہیں تو زندہ مگر سنتے نہیں ۔ اب ان بہروں کو سامنے رکھ کر کوئی مذکورہ بالا اصول ، قاعدے اور قانون (احیاء و زندہ سنتے ہیں ) کو تسلیم نہ کرے تو وہ حق بجانب نہیں ہوگا۔ (۲)اصول ، قاعدہ اور قانون ہے کہ جو فوت ہوجاتے ہیں ، واپس دنیا میں نہیں آتے۔ البتہ چند جزئیات اس اصول، قاعدہ اور قانون سے مستثنیٰ ہیں ۔ مثلاً مار علی قریۃ (ایک بستی پر گزرنے والے) کو اللہ تعالیٰ نے سو سال فوت کیے رکھا، بعد میں زندہ فرمادیا۔ ﴿ أَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلَی قَرْیَۃٍ وَّھِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِھَا قَالَ أَنّٰی یُحْیِی ھٰذِہِ ا للّٰه بَعْدَ مَوْتِھَا﴾(البقرۃ:۲؍۲۵۹)اسی طرح موسیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ آدمیوں کو لے کر گئے اللہ تعالیٰ نے انہیں فوت فرمادیا۔ بعد میں زندہ کردیا۔ ﴿ ثُمَّ بَعَثْنَا کُمْ مِّنْ م بَعْدِمَوْتِکُمْ ﴾الآیہ اسی طرح ہزاروں کی تعداد میں لوگ موت کے ڈر سے اپنے گھر چھوڑ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو فوت کردیا ، پھر زندہ فرمادیا۔ ﴿ أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَھُمْ أُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَھُمُ ا للّٰه مُوْتُوْا ثُمَّ أَحْیَاھُمْ﴾(البقرۃ:۲؍۲۴۳)الآیۃ پھر صحیح بخاری میں ہے دجال ایک مؤمن کو قتل کر ڈالے گا، بعد میں زندہ کردے گا وہ مومن کہے گا مجھے پہلے سے بھی زیادہ یقین ہوگیا ہے کہ تو دجال ہے [صحیح البخاری، کتاب الفتن ، باب لا یدخل الدجال المدینۃ]تو اب ان چند جزئیات کو لے کر کوئی شخص قانون ، قاعدہ اور اصول کہ فوت شدہ زندہ ہوکر دنیا میں واپس نہیں آتے ،کا انکار کردے تو اس چیز کا اس کو حق نہیں پہنچتا۔ امید ہے ان دو مثالوں کو سامنے رکھ کر سماع موتی والا مسئلہ آپ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ اصول ، ضابطہ ، قاعدہ اور قانون یہی ہے کہ موتی فوت شدگان نہیں سنتے، لیکن اس اصول ضابطہ، قاعدہ اور قانون سے کچھ صورتیں مستثنیٰ ہیں ۔ مثلاً میت کا قرع نعال کو سننا اور قلیب بدر والوں کا اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو سننا اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کے سنانے سے ہے، إِنَّ ا للّٰه یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآئُ (سورۂ فاطر:۲۲)’’للہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے۔‘‘اب ان چند مستثنیٰ جزئیات سے اصول، ضابطہ ، قاعدہ اور قانون کہ موتی فوت شدگان نہیں سنتے ہرگز نہیں بدلتا۔ 6۔ آپ لکھتے ہیں : ’’ میں نے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہا مجھے چھوڑ دو میں اپنے گھر میں داخل ہوجاؤں ان دونوں نے کہا کہ ابھی آپ کی عمر کا کچھ حصہ باقی ہے۔‘‘ الخ معلوم ہوتا ہے آپ اس سے یہ کشید کرنا چاہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکمیل عمر اور وفات کے بعد مدینہ منورہ والی قبر میں زندہ نہیں تو اس پر کلام بعد میں آرہا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ البتہ سردست فی الحال اتنی بات تو آپ نے تسلیم فرمالی کہ تکمیل عمر اور وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک