کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 94
ہیں مجھے میری امت کا سلام پہنچاتے ہیں ۔‘‘ ]اس حدیث کو بھی شیخ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے صحیح نسائی میں درج فرمایا ہے۔ دیکھیں : ’’ صحیح نسائی ؍ باب السلام علی النبی صلی ا للّٰه علیہ وسلم ، حدیث نمبر: ۱۲۱۵‘‘نیز ابو داؤد و اواخرحج میں ہے:(( عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم یَقُوْلُ: لاَ تَجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قُبُوْرًا ، وَلاَ تَجْعَلُوْا قَبْرِیْ عِیْدًا ، وَصَلُّوْا عَلَیَّ فإِنَّ صَلاَتَکُمْ تَبْلُغُنِیْ حَیْثُ کُنْتُمْ)) [’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے گھروں کو قبریں مت بناؤ اور میری قبر کو میلہ مت بناؤ۔ اور مجھ پر درود پڑھو، کیونکہ تم جہاں بھی ہوگے تمہارا درود مجھے پہنچے گا۔‘‘ ]حدیث نمبر: ۲۰۴۲
تو دُرود و سلام کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش ہونے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی تشریح فرمادی کہ دُرود و سلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچ جاتا ہے۔ دُرود و سلام بھیجنے والا امتی خواہ کہیں بھی ہو۔
میت کے لیے ہم دعائیں کرتے ہیں نمازِ جنازہ میں بھی اور نمازِ جنازہ کے علاوہ بھی وقتا فوقتا فوت شدہ مسلمانوں کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں تو یہ دعائیں اللہ کے فضل و کرم سے ان کو پہنچتی ہیں ۔ پھر ہم بذریعہ خط و کتابت یا بذریعہ دوست و احباب دوسروں کو سلام دعاء پہنچاتے رہتے ہیں تو یہ سلام دعاء بھی ان تک پہنچ جاتے ہیں ۔ دیکھئے آپ اپنا یہ مکتوب جس میں آپ کا میری طرف سلام بھی درج ہے، مجھ پر پیش کیا تو وہ مجھ پر پیش ہوگیا ہے تو آپ غور فرمائیں اگر کوئی فرمائے: ’’ بقول آپ کے کسی بھائی یا دوست کو بھیجے ہوئے سلام دعاء اس پر پیش کیے جاتے ہیں تو اس کو پہنچ جاتے ہیں ۔ دعاء و سلام ایک عبادت ، دعائیہ عمل ہے سورۂ الشوریٰ آیت نمبر: ۵۳ کے تحت تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں ۔ دعاو سلام کسی کو بھیجتے وقت بھی ہم دعاء اللہ کے حضور کرتے ہیں کہ اے اللہ! ہمارے فلاں بھائی یا دوست پر سلامتی نازل فرما تو سننے والے اس دعاء کو اللہ کی بارگاہ کی بجائے ہمارے فلاں دوست یا بھائی کے حضور پیش کردیتے ہیں ۔ کیا یہ ہمارے دعائیہ کلمات سلام ودعاء سننے والے ہمارے بھائی دعاء سلام دوسروں تک پہنچانے والے عربی، اُردو، انگریزی وغیرہ سے ناواقف ہیں یا آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ کچھ اعمال ہمارے دوستوں اور بھائیوں کے حضور پیش ہوتے ہیں اور کچھ اللہ کے حضور یا آپ اپنے دوستوں اور بھائیوں کو معبود سمجھ کر ان کے حضور اعمال پیش ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔‘‘ تو آپ کا کیا جواب ہوگا؟
آپ کے مکتوب میں جہاں کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کانامِ نامی اور اسمِ گرامی کسی بھی صورت میں ذکر ہوا تو آپ نے(ؐ) لکھا ہے صلی اللہ علیہ وسلم نہیں لکھا۔ اس لیے اس فقیر إلی اللہ الغنی آپ کی عبارت نقل کرتے وقت آپ کا لکھا ہوا (ؐ) ہی نقل کردیا ہے۔ ورنہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنے کا قائل و فاعل ہوں ۔