کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 861
فَإِذَا اُمِرَ بِمَعْصِیَۃٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَۃَ)) [1] [’’ بات کو سننا اور ماننا ضروری ہے تا وقتیکہ وہ کسی گناہ کا حکم نہ دے اگر کسی گناہ کا حکم دیا جائے تو بات سننا اور ماننا ضروری نہیں ہے۔‘‘] پھر صورت مسؤلہ میں والدین اپنی اولاد کو جسم کے کسی عضو کو ضائع کرنے کا حکم بھی نہیں دے رہے۔ باقی رہا عبدالرحمن بلخی کا ایسا کرنا تو وہ شریعت میں حجت و دلیل نہیں ۔ یہ عبدالرحمن بلخی صاحب تو عبدالرحمن بلخی ہیں کسی صحابی رضی اللہ عنہ کا قول اور عمل بھی شریعت میں حجت و دلیل نہیں ۔ رہی کتاب المقاصد السنیۃ فی الأحادیث الالٰھیۃ ، تو وہ کتاب ہے جس میں احادیث قدسیہ کو جمع کیا گیا ہے۔ ۱۳؍۵؍۱۴۲۱ھ س: قیاس کار شیطان ہے آپ کے ہاں ۔مرد اگر کسی پر تہمت لگائے تو اس کو کتنے کوڑے لگائے جائیں ، عورت پر قیاس نہ کیا جائے۔ (طارق ندیم ، اوکاڑوی) ج: یہ ہم پر بہتان ہے سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیْمٌ کیونکہ ’’ قیاس کار شیطان ہے۔‘‘ ہم نہیں کہتے اور نہ ہی یہ ہمارا عقیدہ ہے ۔ ہم تو یہ کہتے ہیں قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و حدیث کی نص کے مقابلہ میں قیاس کار شیطان ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے، اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے کہا: ﴿مَا مَنَعَکَ اَلاَّ تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُکَ قَالَ أَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ﴾[الأعراف:۱۲] [’’اللہ نے پوچھا میں نے تجھے سجدہ کرنے کا حکم دیا ، پھر کس چیز نے تمہیں روکا۔ کہنے لگا: میں آدم سے بہتر ہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے۔‘‘]تو اللہ تعالیٰ کے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کے حکم والی نص کے مقابلہ میں شیطان نے قیاس کیا ، تو جب ’’ قیاس کار شیطان ہے۔‘‘ ہم پر بہتان ہوا تو بعد والا سوال ’’ مرد اگر کسی .....الخ ‘‘ بنتا ہی نہیں ۔ س: ہم اہل حدیث کہلوائیں یا مسلم؟ قرآن مجید تو ہمارا نام مسلم بتاتا ہے۔ دوسرے فرقوں کی طرح اہل حدیث بھی تو ایک فرقہ وارانہ نام ہے؟(محمد یونس شاکر، نوشہرہ ورکاں ) ج: دونوں ، قرآن مجید میں مسلمین اور مؤمنین دونوں آئے ہیں ، پھر قرآن مجید میں مہاجرین اور انصار کا بھی تذکرہ ہے۔ نیز قرآن مجید میں ہے: ﴿وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآئِفَۃٌ﴾ [التوبہ:۱۲۲]
[1] بخاری؍کتاب الجہاد والسیر؍باب السمع والطاعۃ للامام۔