کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 86
شعبی کہتے ہیں کہ عرفات میں کعب رضی اللہ عنہ کی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی اور ان سے کوئی بات پوچھی۔ پھر کعب نے اتنے زور سے اللہ اکبر کہا کہ پہاڑ گونج اٹھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم بنو ہاشم ہیں (یعنی ہم پر اتنا غصہ نہ کیجیے) کعب رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دیدار اور کلام کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور موسیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں تقسیم کیا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دوبار کلام کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبار اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔ مسروق کہتے ہیں کہ پھر میں نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاکر پوچھا کہ: ’’ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھاتھا؟ ‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ: ’’تم نے ایسی بات کہی، جس سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔‘‘ میں نے کہا: ذرا سوچ لیجیے۔ پھر میں نے یہ آیت پڑھی: ﴿ لَقَدْ رَاٰی مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی o﴾ (النجم:۱۸)سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مجھے کہنے لگیں : ’’ تیری عقل کہاں گئی؟ وہ تو جبریل علیہ السلام تھے، جو شخص تجھے یہ بتائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا یا کچھ حصہ چھپایا، جس کا انہیں حکم دیاگیا تھا یا وہ باتیں جانتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت : ﴿إِنَّ اللّٰه عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ ﴾ (لقمان:۳۵) میں بتائیں اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو اس کی اصلی صورت میں دو مرتبہ دیکھا۔ ایک دفعہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس اور ایک دفعہ (مکہ کے محل) جیاد میں ۔ اس کے چھ سو (۶۰۰) پر تھے۔ اور اس نے آسمان کے کناروں کو ڈھانپ لیا تھا ۔ ‘‘[1]سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ آیت پڑھی: ﴿مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی o﴾اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل(کی آنکھ) سے دیکھا تھا۔‘‘ [ترمذی ؍ ابواب التفسیر] سیّدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ’’ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے؟ ‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ’’ وہ تو نور ہے ، میں اسے کہاں سے دیکھ سکتاہوں ؟ ‘‘[2] ان آیات و احادیث سے وضاحت ہوگئی کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو اس دنیا میں ان ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا اور عالم آخرت میں اہل جنت کا اللہ تعالیٰ کو دیکھنا صراحت کے ساتھ احادیث صحیحہ میں مذکور ہے۔] ۱۷ ؍ ۱۰ ؍ ۱۴۲۲ھ س: کیا فرشتے نوری مخلوق ہیں یانہیں ؟ (عبدالغفور ، شاہدرہ لاہور) ج: جی ہاں ! صحیح مسلم کی حدیث میں تصریح موجود ہے۔ [ (( عَنْ عَائِشَۃَ عَنْ رَسُوْلِ ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم قَالَ خُلِقَتِ الْمَلاَئِکَۃُ مِنْ نُوْرٍ وَخُلِقَ الْجَآنُّ مِنْ مَّارجٍِ مِّنْ نَّارٍوَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَکُمْ۔)) ’’ فرشتے نور سے پیدا کیے گئے اور جن آگ کے شعلہ سے
[1] ترمذی ؍ابواب التفسیر ؍ باب ومن سورۃ النجم ، ح:۳۲۷۸ [2] مسلم ؍ کتاب الایمان ؍ باب فی قولہ علیہ السلام ؍ نورأنی أراہ ترمذی ؍ ابواب التفسیر ؍ حَ:۱۷۸